کیا تصوف فرض عین ہے؟

جس طرح ہرمرد اور عورت پر اپنے اپنے حالات کے مطابق دینی مسائل جاننا فرض ہے اور پورے دین کے تمام مسائل میں بصیرت و مہارت پیدا کرنا اور مفتی  بنناسب پر فرض نہیں بلکہ فرضِ کفایہ ہے،اسی طرح جن اچھی صفات (یعنی اخلاقِ حمیدہ) کو حاصل کرنے کا حکم دین اسلام میں دیا گیا ہے اُن کے بارے میں جاننا اور اُن صفات کواپنے اندر پیدا کرنا بھی فرض ہے۔ مثلاًسب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ تقویٰ، اخلاص، توکل، صبرو شکر، تسلیم و رضا،تواضع،خشوع، قناعت، حِلم، سخاوت وغیرہ سے کیا مراد ہے اور پھریہ جاننا بھی ضروی ہے کہ ان صفات کو اپنے اندر پیدا کیسے کیا جائے؟

اس کے ساتھ ساتھ جن بری صفات (اخلاقِ رذیلہ ) سے بچنے کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا ہے اُن کے بارے میں جاننا ، اُن کی اصلاح کرنا، اور اُن سے بچنا بھی فرض ہے۔ مثلاًیہ جاننا بھی ضروری ہے کہ تکبر،عُجب،ریاء،مال کی محبت،بخل،بزدلی،لالچ،حسد، کینہ وغیرہ کی حقیقت کیا ہے اور ان سے کیسے بچا جائے۔ 

خلاصہ یہ کہ  کم از کم  اتنا علم حاصل کرنا فرض ہے جس کی مدد سے اچھی صفات حاصل ہو جائیں اور بری صفات سے نجات نصیب ہوجائے،اور یہی علم صوفیائے کرام کی زبان میں ”علم تصوف“ کہلاتا ہے۔اور کسی شخص کا  پورے علم تصوف میں اتنی بصیرت و مہارت پیدا کرنا کہ دوسروں کی بھی اصلاح اور تربیت کر سکے ،یہ فرضِ کفایہ ہے۔لہٰذا” فِقہ “ کی طرح علم تصوف کا بھی ایک حصہ فرضِ عین  ہےاور پورا علم تصوف حاصل کرنا فرضِ کفایہ ہے۔(اقتباس  از ” فقہ وتصوف“ از حضرت مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب)

یاد رہے کہ فرض کی دو قسمیں ہیں: فرض عین اور فرض کِفایہ۔

فرض ِ عین اُس فرض کو کہا جاتا ہے جس کا ادا کرنا ہر مسلمان مروعورت پر ضروری ہے،جیسے نماز،روزہ، حج، زکوٰۃ ، ظاہری اور باطنی گناہوں سے بچنا وغیرہ۔فرضِ کفایہ وہ فرض ہے جو بعض لوگوں کے بقدرِ ضرورت ادا کرنےسے باقی مسلمانوں کے ذمہ سے ساقط ہو جاتا ہے۔جیسے مسلمان میت کے کفن دفن کا انتظام،نمازجنازہ ،جہادوغیرہ۔

اگر کسی بستی میں کوئی ایک شخص بھی ایسا موجود ہو جو وہاں کے مسلمانوں کو پیش آنے والے  شرعی مسائل بتا سکے اور اُن کے تزکیہ اخلاق کا کام بقدرِ ضرورت کر سکے  تو اس بستی کے باقی مسلمانوں کے ذمہ سے یہ فرض ساقط ہو جاتا ہے، اور اگر اس شہر میں ایک شخص بھی ایسا موجود نہ ہو تو وہاں کے لوگوں پر فرض ہے کہ ایسا عالم اپنے یہاں تیار کریں یا کہیں اور سے بُلا کر رکھیں،ورنہ سب اہل شہر گناہ گار ہونگے۔( تفسیر معارف القرآن ج 4:ص 487 تا 490،  و  ردالمختار مع الدر المختار ج :1، ص 40)