کیاجاوید غامدی موسیقی کو حرام نہیں سمجھتے؟

اُمت ِ مسلمہ کا موسیقی کے بارے میں متفقہ مؤقف:

قرآنِ پاک کی آیاتِ مبارکہ،احادیثِ نبوی ؐ اور اجماعِ اُمت سے ثابت ہے کہ آلاتِ موسیقی کا استعمال اور گانے گانا اور سُننا،حرام، ناجائز اور گناہ ہے۔دورِ حاضر میں اِس سلسلے میں بھی بہت غفلت بھرتی جا رہی ہے۔نبی کریم ﷺ ارشاد فرماتے ہیں:’’ اِس اُمت میں بھی زمین میں دھنسنے ،صورتیں مسخ(تبدیل) ہونے اور پتھروں کی بارش کے واقعات ہونگے،مسلمانوں میں سے ایک شخص نے پوچھا:یا رسول اللہ ! ایسا کب ہوگا؟ آپ ؐ نے فرمایا : جب گانے والی عورتوں اور باجوں کا عام رواج ہو جائے گا اور کثرت سے شرابیں پی جائیں گی۔‘‘ (ترمذی)۔ایک دوسری جگہ ارشاد فرمایا :’’’’بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے شراب،جوا،طبل(ڈھول) اور طنبور (بانسری) کو حرام کیا ہے ،نیز ہر نشہ آور چیز حرام ہے۔‘‘ ( ابو داوٗد) اور یہ کہ ’’ عنقریب میری اُمت میں ایسے لوگ پیدا ہونگے جو زنا،ریشم،شراب اور باجوں کو حلال سمجھیں گے۔‘‘ ( بخاری) (حاشیہ :مزید تفصیلات کے لئے مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع ؒ کی کتاب ’’ اسلام اور موسیقی‘‘ملاحظہ کیجئے۔)

  اِس کے برعکس جاوید غامدی کا نظریہ ملاحظہ فرمائیے ’’ موسیقی انسانی فطرت کا جائز اظہار ہے، اس لئے اس کے مباح (جائز)ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے، مگر بالعموم یہ تصور پایا جاتا ہے کہ اسلامی شریعت اسے حرام قرار دیتی ہے۔ہمارے نزدیک اِس تصور(یعنی موسیقی کے حرام ہونے کے مسئلہ) کے لئے شریعت میں کوئی بنیاد موجود نہیں۔‘‘ِ ِ
(اسلام اور موسیقی ،جاوید احمد غامدی کے افادات پر مبنی مضمون،ماہنامہ اشراق شمارہ مارچ ۲۰۰۴)