ڈاکٹر فرحت ہاشمی الھُدیٰ انٹرنیشنل نامی ادارے کی سربراہ ہیں۔یہ ادارہ خواتین کے لئے مختلف دورانئے کے کورسز کا اہتمام کرتا ہے۔ڈاکٹر فرحت ہاشمی کے ادارے کی ترتیب ، نصاب اور اُن کے لیکچرز کا تحقیقی تجزیہ کرنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ اصل میں الھدیٰ انٹر نیشنل کی تنظیم دینی تعلیم کے نام پرعورتوں میں خود رائی اور دین سے دوری پھیلا رہی ہے۔ڈاکٹر فرحت ہاشمی کےنظریات کا ایک خاکہ نیچے پیش کیا گیا ہے:
ڈاکٹر فرحت ہاشمی کے مطابق دینی معاملات میں کسی مجتہد (اِمام) کی رہنمائی ضروری نہیں۔جِس اِمام کی رائے آسان معلوم ہو اُسی پر عمل کرو(حالانکہ صرف اپنے نفس کی خواہش کو پورا کرنے اور اپنی سہولت کے لئے کسی آسان حل کو منتخب کر لینا جائز نہیں کیونکہ قرآن پاک نے دینی اُمور میں نفس کی پیروی کے بجائے شریعت پر عمل کا حکم دیا ہے)
قرآن و حدیث کی روشنی میں اُمت کے تمام علماء کا متفقہ فیصلہ ہے کہ فوت(قضا) شدہ نمازوں کی قضا ادا کرنا ضروری ہے ،خواہ وہ نمازیں بھول کر قضا ہوئی ہوں یا جان بُوجھ کر۔ڈاکٹر فرحت ہاشمی کہتی ہیں کہ جو نمازیں جان بوجھ کر نہ پڑھی ہوں ،اُن کی ادائیگی ضروری نہیں صرف توبہ و استغفار کافی ہے۔
غور کرنے کی بات ہے کہ آج کل عوام پہلے ہی نماز کی ادائیگی میں سستی کرتے ہیں اس مسئلے کے عام ہونے کے بعد تو کوئی نماز پڑھے گا ہی نہیں۔محترمہ اور اُن کے متعلقین سوچیں کہ اِس طرح کے غلط مسائل عوام کو بتا کر وہ دینِ اسلام کی کونسی خدمت کر رہے ہیں؟
ڈاکٹر فرحت ہاشمی تصویر کو جائز سمجھتی ہیں۔
قرآنِ پاک کی آیاتِ مبارکہ ،احادیث نبوی ﷺ اور اجماعِ اُمت سے یہ ثابت ہے کہ عورت کے لئے باقی بدن کے ساتھ ساتھ اپنے چہرے کو بھی اجنبی مرد کے سامنے ظاہر کرنا جائز نہیں۔اِس کے علاوہ رشتہ داروں میں بھی تمام غیر محرموں سے بھی چہرہ کو چُھپانا اور پردہ کرنا فرض ہے۔( غیر محرم اُن رشتہ داروں کو کہتے ہیں جن سے کسی بھی وقت نکاح ہو سکتا ہے)۔اس لئے ’’چچا زاد،پھوپھی زاد،ماموں زاد،خالہ زاد،دیور،جیٹھ،بہنوئی،نندوئی،پھوپھا،خالو،شوہر کا چچا،شوہر کا ماموں ، شوہر کا پھوپھا،شوہر کا خالو، شوہر کا بھتیجا اور شوہر کا بھانجا سب غیر محرم ہیں اور اِن سب سے پردہ فرض ہے۔
اِس کے برعکس ڈاکٹر فرحت ہاشمی کہتی ہیں کہ ’’ چہرے کا پردہ نہیں ،بہنوئی ،خالو وغیرہ سے پردہ نہیں،شادی شدہ کزنوں سے پردہ نہیں۔غیر شادی شدہ سے احتیاط بہتر ہے۔‘‘ ظاہر ہے اِس طرح کی تعلیمات عام کرنے سے معاشرے میں ’’حیا‘‘ تو عام ہو نہیں سکتی ،بے حیائی کا سیلاب ہی آئیگا۔
(حاشیہ:پردے کےمسئلے کو مزید سمجھنے کے لئے مطالعہ کیجئے؛ ’’پردہ کے شرعی احکام‘‘ ازحکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی ، ’’شرعی پردہ ‘‘ازمولانا قاری محمد طیب ؒ ، ’’ شرعی پردے کی حقیقت ‘‘از مولانا مفتی عبدالرحمٰن ، ’’شرعی پردہ کیوں کیسے ؟‘‘ از مولانا محمد افتخار)
صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ عورت کے لئے بغیر محرم کے سفر کرنا جائز نہیں۔جبکہ ڈاکٹر صاحبہ فرماتی ہیں کہ عورت بغیر محرم کے یا چند عورتیں مل کر سفر پر جا سکتی ہیں۔
احادیثِ نبوی ﷺ ، عملِ صحابہ اور اجماعِ اُمت سے ثابت ہے کہ عورتوں کے لئے جماعت میں شرکت کی غرض سے عام پنج وقتہ نمازوں میں یا جمعہ و عیدین کی نمازوں کے لئے مسجد میں جانادرست نہیں بلکہ مکروہِ تحریمی (سخت ناپسندیدہ)ہے۔ نبی کریم ﷺنے عورتوں کو اس بات کی ترغیب دی ہے کہ اُن کا گھر سے نہ نکلنا ہی بہترہے اور اُن کے لئے افضل و بہتر یہی ہے کہ وہ گھر وں میں نماز پڑھیں(ابوداؤد)۔
ابتدائے اسلام میں حضورﷺ نے عورتوں کو مسجد آنے کی اجازت دی تھی لیکن اس موضوع پر موجود تمام احادیث پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اُس زمانے میں اِس اجازت دینے کا مقصد شان و شوکت اور قوت کا اظہار تھا تاکہ مسلمانوں کی تعداد زیادہ معلوم ہو۔اب اِس کی ضرورت باقی نہیں رہی۔چنانچہ اب خواتین کا مسجد میں آنا ضروری نہ ہوا۔
چنانچہ آپ ﷺ نے اپنے پاکیزہ و مبارک زمانے میں بھی خواتین کو مسجد میں جانے کی اجازت چند شرائط کی بنا ء پر دی تھی اور ساتھ ہی گھر میں نماز پڑھنے کو بہتر قرار دیا تھا۔یہی وجہ ہے کہ نبی کریم ﷺ کے زمانے کے بعد حالات کو دیکھے ہوئے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو یہ فرمانا پڑا کہ اگر حضور ﷺ اِس زمانے کو دیکھ لیتے تو عورتوں کو مسجد میں آنے سے روک دیتے۔(بخاری ومسلم)۔دیگر صحابہ کرام اور تمام فقہاء نے بھی یہ فتویٰ دیا کہ فتنہ پھیلنے کے خوف کی وجہ سے عوت کا مسجد میں جماعت میں حاضر ہونا مکروہِ تحریمی ہے یعنی جائز نہیں۔
دوسری طرف ڈاکٹر فرحت ہاشمی صاحبہ خواتین کوترغیب دیتی ہیں کہ مسجد جا کر باجماعت نماز پڑھیں ،عورتوں کے مسجد جانے پر کوئی پابندی نہیں۔
احادیثِ نبوی ﷺ سے ثابت ہے کہ حائضہ ( یعنی جس عورت کو حیض آرہا ہو ) دورانِ حیض قرآنِ پاک نہیں پڑھ سکتی۔(ترمذی)۔قرآنِ پاک میں بھی حکم دیا گیا ہے کہ قرآن پاک کو پاک لوگ ہی چُھو سکتے ہیں (سورہ توبہ) ،لیکن ڈاکٹر صاحبہ کی رائے یہ ہے کہ’’ حائضہ عورت قرآن پاک پڑھ سکتی ہے۔اِس کو چھُو سکتی ہے ۔کہاں اللہ نے منع کیا ہے کہ ان دنوں میں قرآن نہ پڑھو ،کہاں منع کیا ہے کہ تم اِس کی تعلیم نہ دو۔‘‘ (روزنامہ نوائے وقت ۱۷ مارچ ۲۰۰۲)
ڈاکٹر صاحبہ اکثر اپنے درسوں میں علمائے کرام کو تنقید کا نشانہ بناتی ہیں کہ اِن مولویوں نے دین کو مشکل بنا دیا ہے۔آپ کو اُن کے پاس جانے کی ضرورت نہیں ،مدارس میں وقت ضائع کیا جاتا ہے و غیرہ۔حالانکہ عوام الناس کی بہتری اِسی میں ہے کہ وہ علماء ،صلحاء اور دینی مدارس سے جُڑے رہیں اور اُن سے بلاوجہ بدظن نہ ہوں۔
ڈاکٹر صاحبہ بھی ایک مجلس میں دی جانے والی تین طلاقوں کو ایک ہی تصور کرتی ہے۔نماز میں مرد اور عورت کی نماز کے طریقے کو الگ نہیں سمجھتیں۔رفع یدین،اِمام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنے،ایک رکعت وتر وغیرہ سمیت دیگر مسائلِ نماز میں اہلِ حدیث مکتبِ فکر ہی کی نمائندگی کرتے ہیں۔یہاں تک کہ اُن کی آفیشل ویب سائٹ پر بھی مختلف دینی مسائل پر مشتمل تقریباً تمام کتابیں انتہائی متشدداہل حدیث مکتب فکر کے حضرات ہی کی ہیں۔
ڈاکٹر فرحت ہاشمی کے نظریات کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب جیسے معتدل مزاج شخصیت کو بھی یہ لکھنا پڑا کہ:
’’ جو شخص یا ادارہ مذکورہ بالا نظریات رکھتا ہو اور اُس کی تعلیم و تبلیغ کرتا ہو ،وہ نہ صرف یہ کہ بہت سے گمراہانہ، گمراہ کُن یا فتنہ انگیز نظریات کا حامل ہے، بلکہ اِس سےمسلمانوں کے درمیان افتراق و انتشار پیدا ہونے کا قوی اندیشہ ہے۔۔۔۔۔لہٰذا جو ادارہ یا شخصیت اِن نظریات کی حامل اور مبلغ ہو اور اپنے دروس میں اِس قسم کی ذہن سازی کرتی ہو ،اس کے درس میں شرکت کرنا ،اور اس کی دعوت دینا ان نظریات کی تائید ہے جو کسی طرح جائز نہیں۔(حاشیہ:جلد اوّل، کتاب الایمان والعقائد صفحہ ۸۶، فتویٰ نمبر۱/۴۸۶)
(حاشیہ ڈاکٹر فرحت ہاشمی کے مندرجہ بالا نظریات کو اُنہوں نے اپنی تقاریر میں جگہ جگہ بیان کیا ہے جو اُن کی ویب سائٹس پر دستیاب ہیں۔ مزید تفصیلات کے لئے ملاحظہ کیجئے ’’الھدیٰ انٹرنیشنل کیا ہے ‘‘( مولانا محمد اسمٰعیل طورو) اور ’’ ہدایت یا گمراہی‘‘ (مولانا مطیع الرحمٰن)