تصوف کی راہ پر چلنے والے مسلمان کی ظاہری اور باطنی صفائی ہوتی ہے۔ قرآن پاک میں نبی کریمﷺ کی جن چار بنیادی ذمہ داریوں کا ذکر ہے اُن میں سے ایک ذمہ داری، مسلمانوں کے عقائد اور اعمال کا تزکیہ (پاک کرنا) بھی ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
لَقَد مَنَّ اللّٰہُ عَلَی المُؤمِنِینَ اِذ بَعَثَ فِیھِم رَسُولاً مِّن اَ نفُسِھِم یَتلُو عَلَیہِم اٰیَا تِہٖ وَ یُزَکِّیہِم وَ یُعَلِّمُہُمُ الکِتٰبَ والحِکمَۃَ ج وَ اِن کَانُو مِن قَبلُ لَفیِ ضَلٰلٍ مُّبِینٍ
ترجمہ:حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے مومنوں پر بڑا احسان کیا کہ اُن کے درمیان اُنہی میں سے ایک رسول بھیجا جو اُن کے سامنے اللہ کی آیتوں کی تلاوت کرے ، اُنہیں پاک صاف بنائے اور اُنہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے،جب کہ یہ لوگ اِس سے پہلے یقیناً کھلی گمراہی میں مبتلا تھے۔)آل عمران،آیت ۱۶۴)
ایک دوسری جگہ ارشاد پاک ہے :
قَداَفلَحَ مَن تَزَکّٰی
ترجمہ: جس نے اپنے نفس کا تزکیہ کر لیا وہ(شخص) یقیناًفلاح پا گیا۔(سورہ الاعلیٰ، آیت ۱۴)
گویا تصوف (جس میں انسان کے نَفس اور قلب کی اصلاح ہوتی ہے )کو قرآن ِ پاک نے ’’تزکیہ‘‘ کا نام دیا ہےاور دُنیا اور آخرت میں کامیابی کے لئے نَفس کے ”تزکیہ“ کو ہی بنیادی شرط قرار دیا ہے۔
اِسی طرح قَلب (دِل) کی صفائی کے بارے میں نبی کریم ﷺ ارشاد فرماتے ہیں:
” سُن لو کہ بے شک آدمی کے بدن میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے جب وہ درست ہوتا ہے تو تمام بدن درست ہو جاتاہے اور جب وہ بگڑجاتا ہے تو تمام بدن فاسد ہو جاتاہے۔سُن لو ! وہ ٹکڑا ”قَلب(دِل)“ ہے۔ (كتاب الإيمان، بخاری)
اِس حدیث سے قَلب کی صفائی کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے ۔ قَلب کی صفائی سے مُراد”تمام غلط عقائدسے نجات حاصل کرنا اوردِل میں اللہ تعالیٰ کی ذات اور صِفات کی مُحبت،عظمت،خوف اور کامل یقین پیدا کرنا ہے۔“