ڈاکٹر ذاکر نائیک مختلف مذاہب (اسلام،عیسائیت ،یہودیت ،ہندو مت وغیرہ)کے درمیان موازنہ Comparative study of religons)) کے ماہر ہیں۔آپ دین کے اِس شعبے میں کافی مہارت بھی رکھتے ہیں لیکن جہاں تک دیگر اسلامی احکامات ،عقائد،عبادات وغیرہ کا تعلق ہے اُن میں بہت سارے مقامات پر آپ کی آراء اہل السنت والجماعت کی متفقہ آراء کے مطابق نہیں ۔مثلاًاجتہاد،تقلید،مسئلہ طلاق ،مسئلہ تراویح وغیرہ کے مسائل میں اُن سے بہت بڑی بڑی غلطیاں ہوئی ہیں۔تحقیقی نظر سے دیکھا جائے تو ڈاکٹر ذاکر نائیک اہل حدیث مکتبہ فکر ہی کی نمائندگی کرتے ہیں ( اگر چہ وہ اِس بات کو ماننے کے لئے تیار نہیں)۔
جِن اُمور میں ڈاکٹر ذاکر نائیک میں اُمت کے متفقہ (اجماعی) مسائل میں الگ راہ اختیار کی ہے اُن میں سے چند ایک کا نیچے ذکر کیا جا رہا ہے؛
اجتہاد اور تقلید
تمام اہلِ علم حضرات اِس بات پرمتفق ہیں کہ ایک کَم علم شخص کے لئے ضروری ہے کہ وہ دینی مسائل پر عمل کرنے کے لئے چاروں اِماموں میں سے کسی ایک اِمام (مجتہد) کی تحقیقات پر عمل کرے ( تقلید اِسی کوکہتے ہیں)۔یہی قرآن و سنت کی تعلیمات بھی ہیں اور اِسی پر اُمت کا اجماع بھی ہے ۔
اُمت کا تقریباً ۹۵ فی صد طبقہ اب بھی اِس پر عمل پیرا ہے البتہ ڈاکٹر ذاکر نائیک اِس معاملے میں فرماتے ہیں کہ کسی اِمام یا مجتہد کی تحقیقات کی روشنی میں دین پر چلنے کے بجائے سب مسلمانوں کو قرآن اور صحیح حدیث پر عمل کرنا چاہئیے۔ یہ نعرہ بظاہر تو بہت خوشنما اور جاذِبِ نظر (Attractive) نظر آتا ہے لیکن درحقیقت اِس پر عمل کرنا آسان نہیں ہے ،کیونکہ ایک عام شخص کے لئے یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ صحیح اورضعیف احادیث میں فرق کر سکے،یا احادیث کے باہمی ٹکراؤ (تعارض) کے بارے میں کوئی فیصلہ کر سکے کہ کس حدیث پر عمل کرنا ہے اور کِس پر نہیں؟،یا کونسی احادیث پر حضور ﷺ نے اپنی زندی کے آخری حصے میں عمل فرمایا تھا اور کن احادیث پر عمل چھوڑ دیا تھا؟یہ ساری تفصیلات صرف بخاری اور مسلم شریف کے اُردو ترجمے دیکھنے سے معلوم نہیں ہوتیں بلکہ اِن سوالات کے جوابات کے لئے فقہاء اور مجتہدین نے اپنی عمریں کَھپا ئیں ہیں۔
لہٰذا عقل و فہم کا بھی یہی تقاضا ہے اور شریعت بھی اِس بات کا حکم دیتی ہے کہ کم علم حضرات پر یہ لازم اور ضروری ہے کہ براہِ راست حدیث کی کتابوں کو پڑھ کر اپنے فہم کو معیار بنانے کے بجائے کسی مجتہد کی فہم اورتحقیق پر اعتماد کرکے اُس پر عمل کرے۔
(حاشیہ:مزید تفصیل کے لئے ملاحظہ کیجئے ’’تقلید کی شرعی حیثیت‘‘ (مفتی تقی عثمانی)
ایک مجلس کی تین طلاق کو ایک سمجھنا:
قرآنِ پاک،احادیثِ نبوی ﷺ ،صحابہ کرام کے فیصلوں اورعلماءِ اُمت کے اجماع (اتفاق )سے ثابت ہے کہ اگر کوئی شخص کسی ایک مجلس میں اپنی بیوی کو تین طلاق دے دے تو یہ طلاق ہو جاتی ہے اور وہ بیوی اُس پر حرام ہو جاتی ہے لیکن اہلِ حدیث حضرات کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر ذاکر نائیک بھی اس مسئلہ میں شدید درجے کی گمراہی کا شکار ہیں۔وہ ایک مجلس میں دی جانے والی تین طلاق کو ایک سمجھتے ہیں اور اِس معاملے میں تو ذاکر نائیک نے اپنے ایک بیان میں یہاں تک جرات کی اور کہا کہ’’ یہ فیصلہ(یعنی ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک کہنا ) حضرت عمرؓ کا فیصلہ تھا اور ہم نے حضرت عمرؓ کے فیصلے پر نہیں بلکہ قرآن وحدیث پر عمل کرنا ہے ‘‘۔گویا حضرت عمرؓ اور دیگر صحابہ کو طلاق کے مسئلہ پر قرآنِ پاک اور احادیثِ مبارکہ کی سمجھ نہیں آئی تھی اور دورِحاضر میں ڈاکٹر ذاکر نائیک کو سمجھ آگئی ہے۔غور کیا جائے تو دراصل یہی نقطہ تمام گمراہیوں کی جڑ ہے۔
اِس کے علاوہ ڈاکٹر ذاکر نائیک مرد اور عورت کی نماز میں کسی فرق کے قائل نہیں ہیں۔عورتوں کو مسجد میں جانے کی تاکید کرتے ہیں۔ جمعہ کے خطبہ کو غیر عربی زبان میں دینے کے حق میں ہیں۔۸ رکعت تراویح کو ہی سنت قرار دیتے ہیں۔ عورتوں کے لئے چہرے کے پردہ کو ضروری نہیں سمجھتے۔حالتِ حیض میں قرآنِ پاک پڑھنے کو جائز قرار دیتے ہیں۔ (حاشیہ: ڈاکٹر ذاکر نائیک کے مندرجہ بالا نظریات اتنے مشہور ہیں کہ انٹرنیٹ پر اُن کے اکثر خطبات میں یہ باتیں ملاحظہ کی جاسکتی ہیں)
خلاصہ یہ ہے کہ مذاہب کے باہمی موازنہ کے موضوع پر تو ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب کے بیانات سے کسی حد تک فائدہ حاصل کیا جاسکتاہے البتہ شرعی مسائل کے معاملے میں مستند اور مشہور مفتیانِ کرام اور علمائے کرام سے ہی رابطہ کرنا چاہیئے۔