دین کو سمجھنے اور اِس پر عمل کرنے کے لئے قرآن اور حدیث کے بعد تیسرا اہم ذریعۂ (Source) صحابۂ کرامؓ کا عمل ہے۔ صحابہ کرامؓ کی جماعت دراصل ایسے جانثاروں پر مشتمل تھی جو ہروقت حضور ﷺ کے اشاروں پر جان نَچھا ور کرنے کے لئے تیار رہتے تھے۔ اُن کی نشست و برخاست ہر وقت حضورﷺ کے ساتھ رہتی تھی۔ غَزوات میں آپ ﷺ کے ساتھ شریک ہوتے ۔پانچوں وقت کی نماز آپ ﷺ کی امامت میں ادا کرتے اور دن ، رات کا زیادہ وقت حضور ﷺ کی صحبت میں گزارتے تھے۔ غرض سَفر و حَضر ،خوشی و غمی، دن اور رات کا ساتھ تھا۔ صحابہ کرامؓ اِس دوران حضور ﷺ سے صادر ہونے والے تمام افعال اور اِرشادات کے شاہد اور گواہ تھے۔ حضور ﷺ کی چاہت اور منشاء کو صحابہ کرامؓ سے زیادہ سمجھنے والا کوئی دوسرا نہیں ہو سکتالہٰذا نبی کریم ﷺ کے اِرشادات اور اعمال کی صرف وہی تشریح قابل ِقبول ہو گی جو صحابہ کرامؓ نے کی ہے۔ نبی کریم ﷺ اُستاد تھے اور صحابہ کرامؓ اُن کے اَوَّلین شاگرد، اُنہوں نے حضورﷺ کے صرف الفاظ کو ہی یاد نہیں رکھا بلکہ اُن کے اِحساسات ، جذبات ، خواہِشات اور مَنشاء کو بھی سمجھا اور یاد کیا۔
لہٰذا دین کو سیکھنے اور اِس پر عمل کے لئے قرآن و حدیث ضروری ہیں لیکن اُس کو سمجھنے کے لئے صرف اپنی فہم اور رائے کو معیار (Standard) قرار دینا درست نہیں بلکہ اتھارٹی ( حجّت) صحابہ کرامؓ کی فہم ، رائے اور عمل ہے۔ جو اُنہوں نے سمجھا اور جیسی تشریح اُنہوں نے قرآن و حدیث کی پیش کی در حقیقت اصل دین وہی ہے اور ہمیں اُسی پر عمل کرنے کا حکم ہے ۔ لہذا کسی مسئلےمیں اگرصحابہ کرام کا عمل بظاہر حدیث کے خلاف ہو توصحابہ کرام کے عمل کو ہی سنت تصور کیا جائے گا اور حدیث کے بارے میں یہ رائے قائم کی جائے گی کہ وہ کسی دوسرے موقع کے لئے تھی ورنہ صحابہ کرام کبھی اُس کے خلاف عمل نہ کرتے۔گویا احادیث مبارکہ کی تشریح وہی درست تصور کی جائے گی جسے صحابہ کرام کے اعمال سے تائید حاصل ہوتی ہو۔
البتہ اگرکسی حدیث کی تشریح میں صحابہ کرام کا اختلاف ہو تواُس صورت میں فقہاءاور مجتہدین تحقیق کرکے یہ فیصلہ کریں گے کہ کس صحابی کی رائے پر عمل کرنا زیادہ مناسب ہوگا’’فِقَہ‘‘ کی ضرورت اسی قسم کے مسائل میں پڑتی ہے۔