اجماع سے کیا مراد ہے ؟اورجاوید غامدی  اِجماع کے بارے میں کیا نظریہ رکھتے ہیں؟

ٹی وی پروگرام سے شہرت پانے والے جاوید احمد غامدی  دین و شریعت کے ہر مسئلہ کو اپنی عقل کی میزان پر تولتے ہیں  اور اُن کی عقل میں جو مسئلہ نہیں آتا اُس کا انکار کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ موصوف سزائے اِرتداد (مرتد کی سزا) ، اِجماعِ اُمت اور حدیث کے منکر ہیں۔

"اِجماع کے بارے میں اُمت مسلمہ کا نظریہ کیا ہے؟”

حضور ﷺ کی وفات کے بعد صحابہ کرام یا کسی زمانے کے تمام علماء اور مجتہدین کا کسی شرعی فیصلے پر متفق ہو جانا اِجماع کہلاتا ہے۔دین اسلام کے اَحکامات معلوم کرنے کے لئے قرآن پاک اور احادیث نبوی ﷺ کے بعد تیسرا ذریعہ(Source) اجماع ہی ہے۔

جس طرح ہر مسلمان کے لئے قرآن و سنت سے ثابت شدہ شرعی مسائل پر عمل کرنا ضروری ہے بالکل اسی طرح قطعی(یقینی) ذرائع سے ثابت شُدہ اِجماع پرعمل کرنا بھی لازم ہے اورقرآن پاک کی آیات کے مطابق اس کی مخالفت گناہِ عظیم ہے(النساء:۱۱۵)۔  جس طرح قرآن و سنت کا کوئی فیصلہ غلط نہیں ہو سکتااسی طرح ایسا اجماعی فیصلہ(جو بالکل یقینی اور قطعی ہو) غلط نہیں ہو سکتا، اور بعد کے مسلمانوں پر اس کی پابندی لازی ہے۔

اَحادیث مبارکہ میں تو اجماع پر عمل کی اتنی تاکید آئی ہے کہ اُس کا انکار ممکن ہی نہیں رہا اوربعض صورتوں میں تو اجماع کا انکار کفر ہے۔تقریباً چوالیس (۴۴) صحابہ کرام سے اس سلسلے میں روایات نقل کی گئی ہیں۔

(تفصیل کے لئے ملاحظہ کیجئے حضرت مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب کی کتاب ’’فقہ میں اجماع کا مقام)

دورِ اسلامی میں اجماع کی مثالیں

تاریخ اسلام میں اجماع کی بہت ساری مثالیں پائی جاتی ہیں۔ مثلاً صحابہ کرام اس بات پر متفق ہو ئے کہ اگر کوئی شخص زکوٰۃ کا منکر ہے تو اِس میں اور نماز کے منکر میں کوئی فرق نہیں کیا جائے گا۔چونکہ نماز کا منکر دائرہ اسلام سے خارج ہے لہٰذا زکوٰۃ کے منکر کو بھی دائرہ اسلام سے خارج ہی سمجھا جائے گا۔اِسی اِجماع (متفقہ فیصلے )کی بنیاد پر صحابہ کرام نے منکرین زکوٰۃ کے خلاف جہاد کیا۔

دورِ صحابہ میں اجماع کی دوسری مثال نبوت کے جھوٹے دعوے دار  مُسَیلمَہ کذّاب کو کافر قرار دے کر اُس کے خلاف جہاد کا متفقہ فیصلہ تھا۔

اس کے علاوہ ہر دور میں اس طرح کے اجماع کی مثالیں ملتی ہیں۔دور حاضر میں اجماعِ اُمت کی ایک اہم مثال مرزا غلام قادیانی کے خلاف کفر کے فتویٰ پر پوری امت اسلامیہ کا متفق ہو نا ہے جِس نے نبوت کا دعویٰ کیا تھا ۔

جاوید غامدی کا اجماعِ اُمت کے متعلق نظریہ

ہر دور میں گمراہ حضرات نے اِجماع ہی کا انکار کرکے قرآن و حدیث کے الفاظ سے اپنے مطلب کے معنی نکالنے کرنے کی کوشش کی ہے ۔

جاوید احمد غامدی بھی اسی گمراہی میں مبتلا ہیں چنانچہ اِجماع کے متعلق لکھتے ہیں:

’’دین کے ماخذ میں یہ (یعنی اجماع کا) اضافہ یقیناً بدعت ہے ۔قرآن و سنت کے نصوص میں اس کے لئے کوئی بنیاد تلاش نہیں کی جا سکتی(اشراق اکتوبر ۲۰۱۱،صفحہ نمبر ۲)۔‘‘

یہی وجہ ہے کہ جاوید  غامدی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات و نزول(قیامت سے پہلے دوبارہ نازل ہونے) ، توہینِ رسالت کی سزا ، مسئلہ تکفیر (کسی کو کافر قرار دینے کا مسئلہ)، مُرتَد کی سزا، غلبہِ دین کے لئے جہاد ، رجم، پردہ، سود اور اُمت کے دیگر اکثر اجماعی (متفقہ)مسائل کا انکارکر کے خود بھی گمراہ ہو ئے اور اپنے پیرو کاروں کو بھی گمراہ کیا۔  (جاری)