تصوف کی راہ پر چلنے والے مسلمان میں کون سی صفات پیدا ہونی چاہیئں؟

تصوف  میں اَصل اِصلاح انسان کے باطِن یعنی ”قَلب“ اور”نَفس“ کی ہوتی ہے جس کے نتیجے میں وہ مکمل دین پر عمل کرنے لگ جاتا ہے۔گویا صرف ذکرو اذکار اور مُراقبے کرنے  سے ہی کوئی صوفی نہیں بنتا  بلکہ دین اسلام کے تمام اجزاء  یعنی عقائد ، عبادات ، معاملات (لین دین،ملازمت، تجارت  وغیرہ) ،  مُعاشرت (Social interaction)اور اخلاقیات میں، اللہ تعالیٰ کی رَضا حاصل کرنے کے لئے دین پر عمل کرنے والا ہی اصل صوفی ہے۔

تصوف کی راہ پر چلنے والے انسان کو اپنے اندر مندرجہ ذیل خوبیاں اور صِفات پیدا  کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے:

اُس کےعقائددرست ہوجائیں اوروہ عقائد اُس کےباطِن پرمکمل طور پر حاوی ہو جائیں : یعنی اُس کا ایمان اتنا مضبوط ہو جائے کہ وہ اللہ تعالیٰ کواحَد(ایک)،خالق ، مالک، مُشکل کُشا اور تمام صِفات کا سَرچشمہ سمجھےاور اللہ تعالیٰ پر اُس کا ایمان صرف زبانی نہ ہو بلکہ کسی بھی تکلیف و پریشانی میں صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ذات و صفات پرمکمل اعتماداورایمان رکھے۔ اسباب کو بھی صرف اللہ تعالیٰ کا حکم سمجھ کر اختیارکرے۔اس کے علاوہ دیگر جتنے بھی ضروری عقائد ہیں  اُن سب پر اُس کاعقیدہ مضبوط ہو جائے کیونکہ دُنیا وآخرت میں کامیابی کے لئے سب سے پہلی شرط دُرست عقائد کا سیکھنا اور اُن پر ایمان لاکر اُن کی روشنی میں زندگی گزارنے کا عزم،ارادہ اور کوشش کرنا ہے۔

تمام عبادات  سے متعلق ضروری دینی علم حاصل کرکے اخلاص کے ساتھ اُن پر عمل کرنے کا پابند ہو جائے۔

تمام معاملات یعنی نکاح و طلاق، تجارت،کاروباراورملازمت وغیرہ سے متعلق ضروری علم حاصل کرکے ان پر اخلاص کے ساتھ عمل کرے اور ہر معاملہ میں دیانت ، امانت  اور سچائی سے کام لینے کی کوشش کرےکیونکہ ایمان کی مضبوطی کاامتحان تو معاملات میں ہی ہوتا ہے۔

اُس کی مُعاشرت  یعنی ماں باپ،رشتہ داروں،پڑوسیوں ،دوستوں اور معاشرے کے دیگر افراد کے ساتھ روزمرہ تعلقات،  شریعت کے احکامات کے مطابق ہوجائیں۔

  بُری صِفات(مثلاًریا،حَسَد،بُغض،کینہ،تکبراورلالچ وغیرہ)  کے متعلق ضروری علم حاصل کر لے اوران بری صفات کی اصلاح  کر لے ۔

اچھی صفات (مثلاً  صبر،شکر،اخلاص،عاجزی،اللہ کی محبت اوراللہ تعالیٰ کاخوف وغیرہ) کے متعلق ضروری علم حاصل کر لے اوران تمام اچھی صفات کواپنے اندر پیدا کر لے ؛

جس طرح ظاہری اعضاء سے صادر ہونے والے گناہ (جھوٹ، غیبت ،زنا وغیرہ)  چھوڑنا ضروری ہیں ، اِسی طرح دل کے گناہ (حسد، بغض ، کینہ، تکبُّراور ریاوغیرہ) چھوڑنا بھی فرض ہیں۔ اگران  گناہوں کی عادت پھر بھی باقی رہے تو اپنے پِیر و  مُرشدسے رہنمائی لے کر ان  بری عادتوں کو دور کرے۔

اور جس طرح ظاہری نیک اعمال کرنا ضروری ہیں اسی طرح دل کے نیک اعمال (صبر،شکر،اخلاص ،اللہ کی محبت، توکل،وغیرہ) کرنا بھی فرض ہیں۔

 ذکر الٰہی کی کثرت سے ہر وقت اللہ تعالیٰ کا دھیان اورخیال چھا جائے ؛

حدیث میں اس کو”اِحسان“  کہا گیا ہے جس میں ہر عمل کرتے وقت ”اللہ تعالیٰ میرے سامنے ہے یااللہ تعالیٰ مجھےدیکھ رہا ہے“ کی کیفیت نصیب ہوجاتی ہے۔یہ کیفیت حاصل ہو جانے کے بعدہرعمل میں انسان کی نیت صرف یہ ہوتی ہےکہ اللہ تعالیٰ راضی ہو جائیں اور انسان ہرغلط کام کرنے سے رُک جاتا ہے۔

 روز مرہ کے اعمال میں سُنتوں اور آداب کی پابندی حاصل ہو جائے۔

جب یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے ہاں قبول ہو جائے تو اللہ تعالیٰ کی عام سنت یہی ہے کہ وہ  انسان کو اپنی”  رَضا “ اور”  خوشنودی “ عطا فرماکر اپنےخاص بندوں میں شامل فرما لیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے اپنے بندوں کے ساتھ اس خصوصی تعلق کو’’ نِسبَت‘‘  کہتے ہیں۔یہ اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت ہے اور تصوف کے راستے پر چلنے کا اصل مقصد ہے۔ایسے شخص کو اللہ تعالیٰ دُنیا میں ہی جنت کے مزے نصیب فرما دیتے ہیں۔

اہم نکتہ:صوفیائے کرام فرماتے ہیں کہ اپنی اصلاح اور اللہ تعالیٰ کی رضاحاصل کرنے کے لئے  سچی طلب اورمجاہدہ ( کوشش) ضروری ہے،لیکن اگر کوشش اور طلب کے باوجود کسی کی مکمل اصلاح نہ ہو سکی تب بھی وہ ناکام تصورنہیں ہوگابلکہ قیامت کے دن ،اللہ تعالیٰ کے محبوب بندوں میں سے اُٹھایا جائے گا( ان شاء اللہ) کیونکہ اللہ تعالیٰ کسی کی سچی طلب اور کوشش کوضائع نہیں فرماتے۔