جاوید احمد غامدی قادیانیت کے بارے میں کیا مؤقف رکھتے ہیں؟ 

اُمت ِ مسلمہ کا قادیانیت سے متعلق  متفقہ مؤقف

قرآنِ پاک کی تقریباً سو(۱۰۰) آیات ، دوسو (۲۰۰) سے زائد احادیث نبوی ﷺ اور صحابہ کرام کے دور سے لے کر آج تک امت کے اجماع ( اتفاق) سے یہ بات ثابت ہے کہ’’ حضرت محمد ﷺ اللہ تعالیٰ کے آخری نبی اور رسول ہیں۔آپﷺ کے بعد ا گر کوئی شخص نبوت یا رسالت کادعویٰ کرے خواہ کسی معنی و مفہوم میں ہو ،وہ کافر ،مرتد اور اسلام سے خارج ہے ۔‘‘

مرزا غلام قادیانی نے بھی اپنی نبوت و رسالت کا دعویٰ کیا ۔اِس کے علاوہ اپنی تحریروں میں اُس نے اللہ تعالیٰ،انبیائے کرام، صحابہ کرام ،اولیائے کرام ،وحی، رسالت اور دیگر اسلامی احکامات کی توہین کی، چنانچہ قرآن و سنت اور امتِ مُسلِمہ کے متفقہ فیصلے کے مطابق مرزا غلام قادیانی اور اُس کے تمام پیروکار کافر،زندیق اور مُر تد قرار پائے۔واضح رہے کہ زندیق اُس کافر کو کہتے ہیں جو غیر مسلم ہونے کے باوجوداپنے آپ کو مسلمان کہتا ہو اور دیگر تمام اُمتِ مسلِمہ کو کافر سمجھتا ہو ،اِن کے ساتھ کسی قسم کے تعلقات رکھنا جائز نہیں۔

(حاشیہ: مزید تفصیلات کے لئے ’’ختم نبوت ‘‘ از مفتی محمد شفیع ؒ ، ’’قادیانی فتنہ اور امت اسلامیہ کا موقف‘‘( مفتی محمد تقی عثمانی صاحب ومولانا سمیع الحق صاحب) اورwww.khatm-e-nubuwwat.org www.khatmenubuwwat.org
www.khatm-e-nubuwwat.com
کی ویب سائٹس پر موجود پمفلٹس اور کتابوں کامطالعہ کریں۔)

جاوید غامدی کا قادیانیت کے متعلق نظریہ

اُمتِ مُسلِمہ کے اس متفقہ موقف کے مقابلے میں جاوید احمد غامدی انتہائی گمراہانہ رائے رکھتے ہیں ۔ وہ قادیانیوں سمیت کسی کو بھی کافر قرار دینے کے حق میں نہیں ہیں۔
اِس کے علاوہ جاوید غامدی یہ بھی ماننے کو تیار نہیں کہ مرزا غلام قادیانی نے نبوت کا دعویٰ کیا تھا چنانچہ اپنے ایک بیان میں کہتے ہیں:

’’ مرزا غلام احمد صاحب بنیادی طور پر صوفی تھے ۔مرزا صاحب نے زیادہ سے زیادہ وہی بات کہی تھی جو اِبنِ عربی نے کہی تھی ۔اُنہوں نے (یعنی مرزا غلام قادیانی نے) کبھی صریح لفظوں میں نبوت کا دعویٰ نہیں کیا‘‘

(حاشیہ: جاویدغامدی کے یہ تمام ویڈیو بیانات اُن کی ویب سائٹس پر ’’میزان لیکچرز ۳۵۔بی‘‘ اور یو ٹیوب پر بآسانی دیکھی اور سُنی جا سکتی ہیں)

ایک دوسرے پروگرام میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں :’’۱۹۸۴ء کا آرڈی نینس قادیانیوں کے خلاف ایک ظلم ہے۔‘‘ (نوٹ: واضح رہے کہ ۱۹۸۴ء کا آرڈی نینس جو ضیاء الحق مرحوم نے جاری کیا تھا،کے مطابق ’’غلا م قادیانی کی بیویوں کو ’’اُمُّ المؤ منین‘‘ اور اُس کے ساتھیوں کو ’’صحابہ‘‘ کہنے اوراپنی عبادت گاہوں کو ’’ مسجد ‘‘ کہنے سے قانونی طور پر منع کر دیا گیا۔اِس کے علاوہ قادیانیوں کو منع کیا گیا کہ وہ اپنے آپ کو مسلمان اور اپنے دین کو اسلام کے نام سے پکاریں۔‘‘ یہ آرڈی نینس آج بھی آئین پاکستان کا حصہ ہے )
جاوید احمدغامدی کے دعووں کے برعکس خود مرزا غلام قادیانی نے اپنی کتابوں میں کیا لکھا ہے؟ملاحظہ کیجئے:’’
(1)      ہمارا دعویٰ ہے کہ ہم رسول اور نبی ہیں   (ملفوظات جلد ۱۰ صفحہ ۱۲۷)
(2)      سچا خدا وہی ہے جس نے قادیان میں اپنا رسول بھیجا            (دافع البلاء صفحہ ۱۱،خزائن ،جلد ۱۸، صفحہ ۲۳۱)
(3)      خدا تعالیٰ نے اور اُس کے پاک رسول نے بھی مسیح موعود (مرزاقادیانی) کا نا م نبی و رسول رکھا        (نزول المسیح ص ۴۸،خزائن جلد ۱۸ ص ۴۲۶)
(4)      جو کوئی میری جماعت میں داخل ہو گیا وہ صحابہ میں داخل ہو گیا(خطبہ الہامیہ ص ۲۵۸،خزائن جلد ۱۶،صفحہ ۲۵۸)
مرزا غلام قادیانی کی مزید کفریات مجلس تحفظ ختم نبوت کی ویب سائٹس پر موجود کتب میں تفصیل سے مِل سکتی ہیں۔

غلام قادیانی  کے دیگر کُفریہ عقائد

دوسری اہم بات جس کا یہاں ذکر ذکرنا ضروری ہے وہ یہ کہ مرزا غلام قادیانی کے کفر کی وجہ صرف پیغمبری کا دعویٰ نہیں تھا بلکہ اور بھی کئی وجوہات تھیں مثلاً اللہ تعالیٰ، انبیاء کرام،صحابہ کرام اور رسالت نبوی کی شان میں سنگین گستاخیاں کیں جس کی تفصیلات اُن کی کتابوں میں اب بھی مل جاتی ہیں۔

مرزا کی اتنی گستاخیوں کے باوجود جاوید غامدی کہتے ہیں :’’ مرزا غلام قادیانی صاحب نے صریح الفاظ میں کبھی نبوت کا دعویٰ نہیں کیا‘‘اورمزید یہ کہ ’’مرزا صاحب نے کچھ زیادہ بے احتیاطی نہیں برتی تھی۔‘‘

تمام مسلمانوں اور بالخصوص جاوید غامدی کے جتنے  متعلقین ہیں اُن سے گذارش ہے کہ وہ مرزا غلام قادیانی کی کتابوں کا مطالعہ کریں اور پھر جاوید غامدی کی مذکورہ بالا آراء کو سامنے رکھیں اور سوچیں ؛

کیا غلام قادیانی کے مذکورہ عقائد دین ِ اسلام کی بنیادوں کو تباہ نہیں کررہے ؟

اورکیا جاوید غامدی کا غلام قادیانی کی حمایت میں لکھنا اور بولنا ،شعوری یا لا شعوری طور پرکسی بیرونی ایجنڈے کی تکمیل تو نہیں؟

کیا جاوید غامدی کو یہ احساس نہیں کہ اُن کی رائے کی وجہ سے ختم نبوت کے اِجماعی مسئلے کو کتنا نقصان پہنچ سکتا ہے ؟

کیا جاوید غامدی کویہ احساس ہے کہ وہ ختم نبوت کے حساس ترین مسئلے پرجو رائے دے رہے ہیں وہ قرآنِ پاک، سنت اوراُمت ِ مسلِمہ کے تمام موجودہ اور  سابقہ مجتہدین اور فقہاء کی رائے کے خلاف ہے۔

 ذرا سوچیے۔۔۔۔۔

سوال نمبر 6:کسی کو کافر قرار دینے سے متعلق جاوید غامدی کی رائے کیا ہے؟

 

عالم اسلام کا متفقہ فیصلہ

پوری اُمتِ مسلمہ کا دورِ صحابہ سے اس بات پر اتفاق  چلا آرہا ہے کہ یہودی،عیسائی اور دیگر غیرمسلم "کافر”ہیں اوراسلام کا دعویٰ کرنے والا بھی کوئی شخص اگر ضروریات ِدین میں سے کسی کا انکار کرے گا تو اُسے بھی کافر قرار دیا جائے گا اور اُس کے اوپر ”  کُفَّار”  کے احکامات  بھی جاری کئے جائیں  گے۔ یہی وجہ سے کہ دور ِ صحابہ میں   نبوت کے جھوٹے  دعویداروں، منکرینِ زکوٰۃ اور مرتدین کے ساتھ قتال (جہاد) سے لے کر مرزا غلام قادیانی اور اُس کے متبعین کو کافر ٹھہرانے  تک ،اُمت ِ مسلمہ نے یہی فیصلہ کیا ہے کہ جو شخص بھی کفریہ عقائد اختیار کرے گا،اُسے "کافر” ہی کہا جائے گا۔

جاوید غامدی کا نظریہ

جیسا کہ پچھلی پوسٹ میں ذکر کیا گیا تھا کہ جاوید غامدی قادیانیوں  سمیت تمام کفارکے متعلق اس معاملے میں انتہائی” نرم "رائے رکھتے ہیں اور   قادیانیوں سمیت وہ کسی بھی کافر کو کافر کہلوانے کے سخت خلاف ہیں۔ ایک ٹی وی پروگرام میں کہتے ہیں کہ

’’صرف خدا ہی بتا سکتا ہے کہ فلاں آدمی کافر ہو گیا ہے ،ہم کسی کے بارے میں یہ نہیں کہ سکتے ۔ یہ فیصلہ پیغمبر کرتے ہیں اور قیامت کے دن اللہ تعالیٰ خود کریں گے۔ہم صرف غیر مسلم کہ سکتے ہیں۔کسی پر کفر کا اطلاق کرنا آپ کا کام نہیں ہے۔‘‘ (اقتباس از پرگرام ’’دین و دانش ‘‘ ،یوٹیوب)

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  کا  طرزِ عمل

دین کے کسی بھی حکم کو سمجھنے کی اَوَّلین اتھارٹی صحابہ کرام ہیں، کیونکہ وہ نبی کریم ﷺ کے براہِ راست  شاگرد تھے۔اور نبی کریم ﷺ کی منشاء ، چاہت  اور مُراد کو سب سے زیادہ سمجھنے والے تھے۔اسی لئے تمام اُمت کے علماء اور مجتہدین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ  نبی کریم ﷺ کے ارشادات و اعمال کی صرف وہی تشریح قابلِ اعتماد اور قابلِ عمل ہوگی جو حضور ﷺ کے صحابہ نے کی ہےاور خاص کر جن مسائل  میں تمام صحابہ نے متفقہ طور پر ایک فیصلہ کیا اور اُس پر عمل کیا تو اُن مسائل میں تو صحابہ کی رائے کے خلاف عمل کرنا شدید درجے کی گمراہی بلکہ بعض صورتوں میں تو کُفر ہے۔

لہٰذا دین سیکھنے کے لئے تو قرآن و حدیث ضروری ہیں لیکن قرآن و حدیث کو سمجھنے کے لئے صرف  اپنی رائے اور فہم کو "درست ”  اور "معیار ” سمجھنا یقیناً درست نہیں بلکہ قرآن و حدیث کو سمجھنے کے لئے واحد اتھارٹی (حُجَّت) صحابہ کرام کی فہم اور سمجھ ہے، جو اُنہوں نے سمجھا اور جیسی تشریح اُنہوں نے کی ، درحقیقت اصل دین وہی ہے اور اُسی پر عمل کرنے کا حکم ہے۔

چنانچہ اِس مسئلے پر بھی صحابہ کرام کے طرزِ عمل ہی پر ذرا نظر ڈالیں؛

نبی کریم ﷺ کی وفات کے فوراً بعد جن لوگوں نے زکوٰۃ دینے سے انکار کیا اُن کو صحابہ کرام نے کافر و مُرتد سمجھ کر ہی اُن کے خلاف جہاد کیا۔حالانکہ یہ سب لو گ نماز،روزہ اور دیگر تمام اسلامی احکامات کی پابندی کرتے تھے لیکن شریعت کا صرف ایک حکم ’’زکوٰۃ‘‘ کا انکار کرنے کی وجہ سے قتال کے حقدار ٹھہرے ۔
دوسری مثال نبی کریم ﷺ کی وفات کے بعد ’’مُسیلمہ کذاب‘‘ نامی شخص کی ہے جس نے نبوت کا جھوٹا دعوٰی کیا ۔تمام صحابہ کرام نے اُس کو کافر و مُرتدسمجھتے ہوئے اُس کے خلاف جہاد کیا۔ حالانکہ "مُسَیلمَہ کَذاب” بھی مرزا قادیانی کی طرح حضور ﷺ کی نبوت پر ایمان لانے کے ساتھ اپنی نبوت کا دعوی ٰ کرتا تھا، یہاں تک کہ جب اُس کا مؤذن”حُجیر”  اذان میں "اشہد ان محمد الرسول اللہ ” کہتا تو مسیلمہ بلند آواز کہتا کہ  "حُجیر” نے صاف بات کہی اور پھر اُس کی تصدیق کرتا تھا۔ (تاریخ طبری ص 244 جلد 3)۔الغرض  نبوت و قرآن پر  ایمان ،نماز روزہ سب کچھ تھا لیکن ختم ِ نبوت کے واضح عقیدے کا انکار اور نبوت کا دعویٰ  کرنے کی وجہ سے تما م صحابہ  کرام نے متفقہ طور پر "مُسَیلمہ کذاب ” اور اُس کے تمام پیرو کاروں کو  کا فر سمجھا اور  حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہُ کی سر براہی میں ایک عظیم الشان لشکر اُس کے خلاف جہاد کے لئے بھیجا۔صحابہ کرام میں سے تو کسی نے یہ نہ فرمایاکہ ’’ اِن لوگوں کو کافر و مُرتد نہ سمجھو ، یہ کام تو صرف اللہ اور اُس کے رسول ﷺ کا تھا۔‘‘

دوسری بات یہ  کہ اگر قرآنِ پاک کی کوئی آیت یا حدیث کسی کو کافر قرار دینے سے منع کرتی تو صحابہ کرام کبھی بھی اِس کے خلاف عمل نہ کرتے۔

کسی کو کافر قرار دینے سے متعلق جاوید غامدی کی رائے

پچھلے ابواب  میں یہ گذارش کی گئی تھی  کہ دینی احکامات جاننے  کے لئے قرآن و سنت کے علاوہ اِجماع  تیسرا ماخذ (Source) ہے اور اجماع کی مخالفت بھی شدید درجے کی گمراہی ہے۔دورِ  صحابہ سے لے  کر آج تک کسی مجتہد یا عالم ِدین نے کسی غیر مسلم کو کافر قرار دینے کے  عمل کو غلط نہیں کہا  ہے اور یہ بھی  تما م مجتہدین اور فقہاء کا متفقہ فیصلہ ہے کہ ضروریات ِ دین (یعنی دین ِ اسلام کے یقینی اور قطعی عقائد و مسائل) کا انکار کرنا کُفَر ہے ۔

تمام علمائے کرام اس اُُصول پر بھی متفق ہیں کہ جس کام سے ہمارے دین میں منع نہ کیا گیا ہو وہ اصلاً مباح (جائز ) ہی ہوتی ہے لہٰذا کسی شخص یا گروہ کو اُن کے کُفریہ نظریات کی بنیاد پر ’’کافر قرار دینا ‘‘ بالکل جائز ہے۔

نبی کریم ﷺ کی احادیثِ مبارکہ سے بھی ثابت ہے کہ کُفریہ عقائد و نظریات رکھنے والے کسی شخص کو کافر قرار دینے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ جیسا کہ ارشاد پاکﷺ سے بھی واضح ہے کہ ’’ اگر کسی نے دوسرے کو کافر کہا ،تواُن میں سے ایک نے کفر کیا ۔اگر دوسرا شخص واقعی کافر ہے تو اُس کے ساتھی نے درست بات کہی اور اگر وہ ایسا نہ تھا جیسا اُس نے کہا (یعنی اگر وہ کافر نہ تھا) تو کافر کہنے والا کفر کے ساتھ لوٹا

(اِمام بخاری،الادب المفرد،اِس موضوع پر دیگر روایات صحیح بخاری،صحیح مسلم وغیرہ میں آئی ہیں)۔

اگر کسی کو کافر کہنے کی ممانعت ہوتی تومندرجہ بالا حدیث میں حضور ﷺ فرما دیتے کہ خبردار کسی کو کافر نہ کہو۔البتہ چونکہ کسی کو کافر قرار دینے کا معاملہ بہت نازک ہے لہٰذا انتہائی احتیاط کی ضرورت ہے۔

کیااسلامی معاشرے میں مسلمان اور کافر کی تفریق کئے بغیر اسلامی احکامات پر عمل ممکن ہے؟

اِس بارے میں یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ شریعتِ اسلامی کے حکم کے مطابق کسی مسلمان کی جائیداد میں کسی کافر کو اور کسی کافر کی جائیداد میں کسی مسلمان کو حصہ نہیں دیا جا سکتا ۔ لہٰذا علماء و قاضی حضرات کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ فلاں شخص کافر ہو گیا ہے یا نہیں؟

دوسری مثال مرد اور عورت کے نکاح کو قائم رکھنے کی بھی دی جا سکتی ہے کیونکہ اگر کسی مرد کی بیوی یا کسی عورت کا شوہر کافر ہوجائے (مثلاً ختم نبوت کا انکار کرے وغیرہ) تو بھی نکاح قائم نہیں رہ سکتا۔ اِس صورت میں بھی عدالتوں اور قاضیوں کو یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ کیا مذکورہ شخص یا عورت کافر ہو گیا (گئی) ہے یا نہیں؟

مَساجد میں اِمامت کے مسئلے پر بھی یہی ہوگا کیونکہ کوئی کافر تو مسلمانوں کی اِمامت نہیں کرا سکتا لہٰذا اگر تنازعہ ہو گیا تواِمام کے بارے میں فیصلہ کرنا ہو گا کہ وہ مسلمان ہے یا کافر؟

اِسی طرح کی کئی اور بھی صورتیں پیش آسکتی ہیں جن میں شرعی احکام پر عمل کرنے سے پہلے ایمان و کفر کا فیصلہ کرنا ضروری ہوگاکیونکہ کوئی مسلمان اس بات کو برداشت نہیں کر سکتا ہے کہ وہ کسی قادیانی ،منکرِ حدیث یا کافر کی اِمامت میں نمازیں پڑھیں یا وہ کسی کافر کو وراثت میں اپنا حصہ دار ٹہرائیں۔

کیا  دائرہ اسلام سے نکلنے( یعنی کافر ہونے کے لئے)ارادہ اورقصد ضروری ہے؟

مندرجہ بالا مسئلے سے مِلتا جُلتا  ایک دوسرا غلط نظریہ یہ بھی پھیلایا جا رہا ہے کہ’’ دائرہ اسلام سے نکلنے یعنی کافر ہونے کے لئے ’’ارادہ‘‘ اور’’ قصد‘‘ ضروری ہے۔اگر کوئی شخص خود کو مسلمان سمجھتا ہے لیکن عقائد اور نظریات کفر کے رکھتا ہے تو کسی مفتی کو یہ حق حاصل نہیں کہ اُسے کافر قرار دے ۔‘‘

اگر اِس نظریئے کو درست مان لیا جائے تو پھر تو شیطان (ابلیس) بھی کافر نہ ہوا۔کیونکہ ارادہ تو اُس نے بھی نہیں کیا تھا لیکن قرآن پاک نے اُس کو کافر قرار دیا ہے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے ؛ ’’ اور تھا وہ (ابلیس) کافروں میں سے ‘‘

اِسی طرح نبی کریم ﷺ کے بعد زکوٰۃ دینے کے منکر اور نبوت کے دعویدار مسیلمہ کذاب اور اُس کے منکرین نے بھی اسلام چھوڑنے کا اعلان نہیں کیا تھا بلکہ خود کو مسلمان کہتے اور سمجھتے تھے ،نمازیں پڑھتے تھے اور دیگر تمام شرعی احکامات پر عمل کرتے تھے لیکن تمام صحابہ کرام نے اُن کو کافرسمجھتے ہوئے اُن کے خلاف جہاد کیا۔لہٰذا اگر فقہاء اور مجتہدین کسی شخص کے عقائد و نظریات کی بنیاد پر اُسے کافر قرار دیتے ہیں تو یہ اُن کی دینی ذمہ داری ہے اور اِس بارے میں کوتاہی برتنے پر اُن سے مواخذہ ہوگا۔