جاوید غامدی کا حضرت عیسیٰ ؑ اور دجال کے بارے میں کیا نظریہ ہے؟

:اُمتِ مسلمہ کا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں عقیدہ

قرآن پاک کی آیاتِ مبارکہ ،صحیح احادیث نبوی ﷺ اور امت کے اِجماع سے ثابت ہے کہ جب یہودیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کرنے کی کوشش کی تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے فرشتے اُن کو اُٹھا کر زندہ سلامت آسمان پر لے گئے اور قیامت سے قبل جب ’’دَ جَّال ‘‘ کا ظہور ہو گا تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام دوبارہ نازل ہوکر دَجال کو قتل کریں گے۔کچھ عرصہ بعد آپ کی وفات ہو جائیگی اور مسلمان آپ کی نمازِ جنازہ پڑھ کر آپ کو حضور ﷺ کی قبر مبارک کے قریب روضہ اقدس میں دفن کر دینگے۔قیامت سے پہلے پیش آنے والے یہ تمام حالات آیاتِ قرآنی اور صحیح و متواتر احادیث میں پوری وضاحت کے ساتھ بیان کئے گئے ہیں ۔ جن احادیث میں یہ تمام تفصیلات بیان کی گئی ہیں اُن کی تعداد ایک سو سے زیادہ ہے جو تیس سے زیادہ صحابہ سے نقل کی گئی ہیں۔یہ تمام احادیث بخاری، مسلم،ابوداود،ابن ماجہ اور مسند احمد میں موجود ہیں۔بطور مثال صرف دو احادیث نیچے درج کی جارہی ہیں؛

حدیث نمبر ۱:

رسول اللہ ﷺنے فرمایا قسم ہے اُس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے ۔وہ وقت ضرور آئے گا جب تم میں (اے اُمتِ محمدیہ) ابنِ مریم (یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام ) حاکم عادل کی حیثیت سے نازل ہو کر صلیب توڑیں گے،خنزیر کو قتل کریں گے، جنگ کا خاتمہ کر دیں گے اور مال و دولت کی ایسی فراوانی ہوگی کہ اسے کوئی قبول نہیں کرے گا اور(لوگ ایسے دین دار ہو جائیں گے کہ اُن کے نزدیک ) ایک سجدہ دنیا و ما فیہا سے بہتر ہوگا۔‘‘

پھر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اگر تم (حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دوبارہ نازل ہونے کی دلیل قرآنِ پاک میں دیکھنا) چاہو تو یہ آیت پڑھ لو ؛

ترجمہ: یعنی ( اس زمانہ کے )تمام اہلِ کتاب عیسیٰ علیہ السلام کی تصدیق اُن کی موت سے پہلے کر دیں گے ( کہ بیشک آپ زندہ ہیں ،مَرے نہ تھے اور آپ نہ خدا ہیں نہ خدا کے بیٹے بلکہ اللہ کے بندے اور رسول ہیں ) اور عیسیٰ علیہ السلام قیامت کے دن اُن اہلِ کتاب کے خلاف گواہی دیں گے ( جنہوں نے اُن کو خدا کا بیٹا کہا تھا یعنی نصاریٰ اور جنہوں نے اُن کی تکذیب کی تھی یعنی یہود)اور صحیح مسلم کی روایت میں اتنا اور زیادہ ہے کہ (حضرت عیسی علیہ السلام کے زمانے میں) لوگوں میں باہمی عداوت اور کینہ و حسد ختم ہو جائے گا۔(بخاری، مسلم، ابوداود،ابن ماجہ، مسند احمد)

تشریح:

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اس آیت کا حوالہ اس لئے دیا کہ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ابھی موت نہیں آئی بلکہ آئندہ زمانے میں آنے والی ہے اور ظاہر ہے کہ موت دنیا میں نازل ہونے کے بعد ہی آئے گی جیسا کہ احادیث سے بالکل واضح ہے۔

حدیث نمبر ۲:

حضرت جابر رضی اللہ عنہُ فراتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سُنا کہ میری اُمت میں ایک جماعت (قرب) قیامت تک حق کے لئے سر بلندی کے ساتھ بر سَرِ پیکار رہے گی۔۔ فرمایا پس عیسیٰ بن مریم علیہ السلام نازل ہونگے تو اُس جماعت کا امیر اُن سے کہے گا کہ ’’ آئیے نماز پڑھائیے ‘‘ آپ فرمائیں گے نہیں اللہ نے اس اُمت کو یہ اعزاز بخشا ہے اس تم (ہی) میں سے بعض بعض کے امیر ہیں۔(مسلم و احمد)

دیگر احادیث میں اِس کی وضاحت آئی ہے کہ جماعت کے امیر حضرت اِمام مہدی ہونگے۔

چودہ سو سالہ اسلامی تاریخ میں تما م علمائے کرام کا یہ متفقہ فیصلہ ہے کہ قیامت سے قبل حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دوبارہ نازل ہونے کے عقیدے پر ایمان لانا ضروری ہے اور اس کا انکار کفر ہے اور اس عقیدے کی تاویل کرنا گمراہی اور الحاد ہے۔(مقدمہ عقیدۃالاسلام صفحہ ۳۳، بحوالہ فتاویٰ محمودیہ جلد ۳ ،صفحہ ۲۵۰)

(مزید تفصیلات کے خواہشمند حضرات حضرت مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب کی کتاب ’’علامات قیامت اور نزول مسیح‘‘ کا مطالعہ فرمائیں۔)

کیا حضرت عیسیٰ علیہ السلام وفات پا چکے ہیں؟

قرآنِ پاک میں واضح طور پر یہ بات کہی گئی ہے کہ یہودیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو قتل نہیں کیا بلکہ اللہ تعالیٰ نے اُن کو زندہ اپنی طرف اُٹھا لیا تھا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ :’’ نہ اُنہوں نے عیسیٰ کو قتل کیا تھا نہ اُن کو سُولی (پھانسی ) دے پائے تھے بلکہ اُنہیں اشتباہ ( شُبہ) ہوگیا تھا ۔۔۔۔اور یہ بات بالکل یقینی ہے کہ وہ عیسیٰ کو قتل نہیں کر پائے بلکہ اللہ نے اُنہیں اپنے پاس اُٹھا لیا تھا۔۔( سورۃالنساء 156,157)

البتہ بعض لوگ( جِن میں قادیانی ، منکرین حدیث اور جاوید غامدی جیسے لوگ شامل ہیں ) قران پاک کی سورہ آل عمران کی آیت نمبر ۵۵ کے ایک لفظ ’’ متفویک‘‘کو بنیاد بنا کریہ گمراہ کُن دعویٰ کرتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام (نعوذُ باللہ) وفات پا چُکے ہیں ۔ حالانکہ لفظ ’’ توفیٰ‘‘ کا مطلب ہر جگہ ’’موت ‘‘ کرنا درست نہیں۔ لفظ ’’ توفی‘‘ کا اصل معنی ٰ ہے ’’ کسی چیز کا پورا پورا لے لینا‘‘ ہے اور موت اِس کا مجازی معنی ہے حقیقی نہیں۔

پورے قرآنِ پاک کا مطالعہ کیجئے ،جگہ جگہ موت اور حیات کو ایک دوسرے کے مقابلے میں استعمال کیا گیا ہے لیکن کہیں پر بھی لفظ’’ توفی‘‘ کو ’’ حیات‘‘ کا مقابل نہیں ٹھہرایا گیا۔

قرآن پاک ہی میں دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ؛ ’و ھوالذی یتوفاکم باللیل ( الانعام:۶۰ ، پارہ ۷) ’’اور اللہ وہ ذات ہے جو رات کے وقت تمہاری روح قبض کر لیتا ہے‘‘ ۔ اِس آیت میں لفظ ’’توفی‘‘ موت کے بجائے نیند کے موقع پر استعمال کیا گیا ہے اگر توفی سے مُراد صرف موت ہی ہوتی تو یہاں اس کو استعمال نہ کیاجاتا۔

ایک اور آیت ہے کہ ’’ حتیٰ یتوفاھن الموت (النسا ء: ۱۵، پ ۴)یعنی ’’یہاں تک کہ اُنہیں موت اُٹھا کر لے جائے‘‘۔ اِس آیت میں بھی اگر توفی کا معنی بھی موت تھا تو آگے لفظ ’’موت ‘‘ لانے کی کیا ضرورت تھی؟

قرآنِ پاک کی تفسیر کے علماء اس بات سے باخبر ہیں کہ قرآن پاک میں جہاں کہیں دوسرے انبیاء کی موت کا ذکر کیا گیا ہے وہاں موت کا لفظ استعمال کیا گیا ہے اور لفظ ’’ توفی‘‘ سے موت کے معنی صرف اُس وقت لئے گئے ہیں جہاں موت کے ساتھ متعلقہ دیگر لوازمات کا ذکر بھی کیا گیا ہو۔

لہٰذاکسی ایسے لفظ ( جس کے ایک سے زیادہ معنی ممکن ہیں) کی بنیاد پر اُمت مسلمہ کے متفقہ عقیدے کو رَد کرنا یقیناً زیادتی ہے۔

جاوید غامدی کاحضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات کے بارے میں نظریہ

اُمت کے اس متفقہ بنیادی عقیدہ کے برعکس جاوید احمد غامدی کا نظریہ یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام وفات پا چکے ہیں(نعوذ باللہ) اور فرشتے اُن کی روح قبض کرکے لے جا چکے ہیں اور قیامت سے قبل حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دوبارہ واپسی کا عقیدہ درست نہیں۔(ماہنامہ اشراق ۱۹۹۵ صفحہ ۴۵،۲۳،جولائی ۱۹۹۶، میزان صفحہ ۱۷۸،طبع مئی ۲۰۱۴)۔

قادیانی حضرات کا تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کا عقیدہ رکھنا سمجھ میں آتا ہے کیونکہ اُن کے پیشوا مرزا غلام قادیانی نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مُردہ قرار دے کر اپنے آپ کو ’’ مسیح موعود‘‘ قرار دیا۔ منکرین حدیث ،چونکہ احادیث ہی کا انکار کرنے والے ہیں لہٰذا وہ بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کا عقیدہ رکھتے ہیں ۔ نہ جانے جاوید غامدی کیوں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات اور نزول کا انکار کرکے قادیانیوں اور منکرین حدیث کی صف میں شامل ہونے پر بضد ہیں؟