رجم کی سزا کے متعلق جاوید غامدی کا  کیامؤقف ہے؟

اُمت ِ مسلمہ کا رَجَم کی سزا کی سزا کے بارے میں متفقہ مؤقف:
رسول اللہ ﷺ کی احادیث مبارکہ اور اُمتِ مُسلِمہ کے اجماع (اِتفاق) سے ثابت ہے کہ شادی شدہ زانی کیلئے شریعت نے رجم (سنگ ساری )کی سزا دی ہے  ( سنگ ساری سے مراد یہ ہے کہ زنا کرنے والے شادی شدہ مرد یا عورت کو پتھروں سے ہلاک کیا جائے) جبکہ غیر شادی شدہ زانی کے لئے کوڑوں کی سزا مقرر ہے۔ نبی کریم ﷺ نے بہت ساری احادیث مبارکہ میں یہ حکم ارشاد فرمایا ہے کہ شادی شدہ زانی کو سنگ سار کیا جائے گا۔نو (۹) جلیل القدر صحابہ کرام کی روایات تو صحیح بخاری جلد ۲ (۱۰۰۶ تا ۱۰۱۱) میں موجود ہیں جس میں نبی کریم ﷺ رجم کرنے کا حکم ثابت کیا گیاہے۔اِس کے علاوہ پندرہ دیگر صحابہ کرام سے حدیث کی مشہور کتاب مسند احمد میں احادیث نقل کی گئی ہیں۔اس کے علاوہ بھی احادیث کی دیگر کتابوں میں کافی روایات ملتی ہیں۔

دور نبوت میں رجم کی سزا :

حضور ﷺ کے زمانے میں شادی شدہ زانیوں کونبی کریم ﷺ نے خود رجم کی سزا دی۔ اِن میں زیادہ مشہور واقعات چار ہیں؛ایک حضرت ماعزؓ ابن مالک اسلمی کا ، دوسرے بنو غامد قبیلے کی ایک عورت کا ،تیسرا ایک اعرابی کی بیوی کا (جس کے رجم کے لئے آپﷺنے حضرت انیس سلمی کو بھیجا تھا) اور چوتھے دو یہودیوں کا ۔یہ تمام واقعات صحیح بخاری میں موجود ہیں۔رجم کے یہ تمام واقعات سورہ نور کے نازل ہونے کے تقریباً دو سال بعد پیش آئے۔نبی کریم ﷺ کی وفات کے بعدخلفائے راشدین کے دور میں بھی شادی شدہ زانیوں کو رجم ہی کی سزا دی گئی۔اور ابھی تک امت کے کسی بڑے عالم نے اس کی مخالفت کی گستاخی نہیں کی۔
رَ جَم کا انکار کرنے والوں کے لئے حضرت عمرؓ کا تاریخی ارشاد:

رَ جَم کا انکار کرنے والوں کے لئے حضرت عمرؓ کا یہ ارشاد قابل غور ہے جس میں وہ فرماتے ہیں:’’ مجھے ڈر ہے کہ لو گوں پر زمانہ دراز گذر جائے تو کوئی کہنے والا یہ نہ کہنے لگے کہ ہم رجم کا حکم اللہ تعالیٰ کی کتاب میں نہیں پاتے۔پھر کہیں لو اس فریضے کو چھوڑ کر گمراہ نہ ہو جائیں جو اللہ نے نازل کیا ہے۔خوب سُن لو کہ رجم کا حکم اُس شخص کے لئے حق ہے جو محصن( شادی شدہ) ہونے کی حالت میں زنا کرے جب کہ اُس پر گواہیاں قائم ہو جائیں یا حمل ثابت ہو جائے یا ملزم خود اعتراف کر لے۔ (صحیح بخاری،جلد ۲ ،۱۰۰۷ اصح المطابع دہلی ۱۳۵۷ھ)

جاوید غامدی کا رَجَم کے بارے میں مؤقف

لیکن جاوید غامدی نے اس متفقہ مسئلہ کا بھی انکار کرتے ہوئے لکھا ہے:’’ کنوارے زانیوں کی طرح شادی شدہ زانیوں کی سزا بھی قرآن مجید کی رُو سے ضربِ تازیانہ (کوڑے) ہی ہے ۔‘‘(برہان:صفحہ ۹۲) اور ساتھ ہی یہ وضاحت کرتے ہیں کہ اگر شادی شدہ زانی ’’غنڈہ گرد‘‘ ،’’آوارہ‘‘ اور’’ بد معاش‘‘ ہوگاہوا تبھی اُس کو رجم کیا جائے گا ورنہ زانی کو صرف شادی شدہ ہونے کی وجہ سے رجم کی سزا نہیں دی جائیگی۔(برہان:صفحہ ۹۱)دوسرے الفاظ میں ا گر شادی شدہ زانی ’’شرافت‘‘ سے زنا کرلے اور’’ غنڈہ گرد ‘‘اور’’ آوارہ‘‘ اور’’ بدمعاش‘‘ نہ ہو تواُس کو رجم کی سزا نہیں دی جائیگی۔