قرآن و حدیث کی موجودگی میں اِماموں اورمجتہدین کی کیوں ضرورت پڑتی ہے؟اور کیا مسلمانوں کی رہنمائی کے لئے صرف قرآن و حدیث کافی نہیں؟

قرآن اور حدیث  کے بعض مسائل تو بالکل واضح ہیں، اِن میں کسی قسم کی پیچیدگی نہیں پائی جاتی ۔ مثلاً  غیبت ، زنا ، جھوٹ وغیرہ کے حرام ہونے اور اُن سے بچنے کے بارے میں جو آیات ِقرآنی اور احادیث آئی ہیں،  عربی زبان سے معمولی واقفیت رکھنے والا شخص بھی اُن کو سمجھ کر اُن پر عمل کر سکتا ہے لیکن بعض احکام و مسائل سے متعلق آیات اور  احادیث ایسی ہیں جن کو سمجھنا عام آدمی کی فہم سے بالا تر ہے۔ لہذا ایسے پیچیدہ اور مشکل مسائل میں اِمام یا مجتہد کی رہنمائی کی ضرورت پڑتی ہے۔

اجتہاد کی ضرورت کا ثبوت حدیث نبوی ﷺ سے

 آنحضرت ﷺ نے جب حضرت معاذؓ کو یمن کا گورنر بنا کر بھیجنا چاہا تو فرمایا جب تیرے سامنے کوئی جھگڑا آئے تو اُس کا فیصلہ تُو کیسے کرے گا؟ اُنہوں نے فرمایا میں اللہ کی کتاب کے مطابق فیصلہ کروں گا۔ آپﷺ نے فرمایا کہ اگر اللہ تعالیٰ کی کِتاب میں تجھے نہ ملے تو پھر تُو کیا کرے گا؟ اُنہوں نے فرمایا کہ پھر میں سنتِ رسول ﷺ کے مطابق فیصلہ کروں گا۔ فرمایا کہ اگر سنتِ رسول اللہ ﷺ اور کتابُ اللہ میں تجھے نہ مل سکے تو پھر تُو کیا کرے گا؟ اُنہوں نے فرمایا کہ پھر میں اپنی رائے سے اِجتہاد کروں گا اور اِس (اجتہاد)  میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں کروں گا۔ آپﷺ نے حضرت معاذؓ کے سینے  پر (رضامندی اور شفقت کا) ہاتھ مارا اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا ہے جس نے رسول اللہﷺ کے قاصد کو اُس چیز کی توفیق عطا فرمائی جس پر اللہ کا رسول ﷺ راضی ہے۔(ابو داؤد   3575،   ترمذی1351)۔

 اِس حدیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ بعض ایسے شرعی مسائل کا وجود ممکن ہے جن کا حل قرآن و حدیث میں واضح الفاظ میں نہ پایا جائے  چنانچہ جو مسئلہ قرآن و سنت اور عمل صحابہ میں نہ مل سکے تو کسی مجتہد کا اُس میں اِجتہاد کر کے اُس کا حل نکالنے میں اللہ اور اُس کے رسولﷺ کی رضا مندی  شامل ہے۔

مجتہدین کی تشریحات کی مثال

اِماموں اور مجتہدین کی تشریح کی مثال ایسی ہے جیسے کسی ملک کی عدالتِ عالیہ (سپریم کورٹ) کے جج کسی خاص مقدمہ میں اپنا فیصلہ سنا دیں  تو وہ آئندہ کے لئے ایک مثال (Precedent) بن جاتی ہے۔ آئندہ جب اِس قسم کا مقدمہ عدالت میں پیش ہوتا ہے تو عدالت قانون کی اصل کتابوں کو دیکھنے کی بجائے اِس مثال (Precedent)کی بنیاد پر فیصلہ سناتی ہے۔ اسی طرح جب اِمامت اور اجتہاد کے منصب  پر فائز مجتہد کسی مسئلہ میں قرآن ، حدیث اور عملِ صحابہ کی روشنی میں  کوئی رائے قائم کرے تو پھر یہ رائے عوام کے لئے حجت بن جاتی ہے۔ اور اِس کے بعد کسی کو یہ کہنے کا حق حاصل نہیں کہ جو لوگ امام کے فیصلوں کی پیروی کرتے ہیں وہ قرآن و حدیث کی بجائے امام کو مانتے  ہیں ۔ کیونکہ امام کا فیصلہ اصل ذرائع یعنی قرآن ، حدیث اور صحابہ کے عمل سے ہی  وجود میں آیا ہے۔

کیا ہر شخص مجتہد بن کر اجتہاد کرسکتا ہے؟

 امام یا مجتہد کو ن ہوسکتا ہے؟ جس طرح کسی  ملک کے قانون و آئین  کی تشریح(Interpretation)  ہر  ایک  کا کام نہیں اسی طرح  احکام شریعت  کے پیچیدہ یا نئے پیش آنے والے مسائل کا حل نکالنا بھی ہر ایک کا کام نہیں۔ امامت کے عُہدے کی سخت شرائط کا اندازہ اِس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ چودہ سو سالہ  اسلامی تاریخ میں صرف چند ہی حضرات اِس عُہدے پر فائز ہو سکے ہیں۔ جن میں سے اللہ تعالیٰ نے قبولیت عام صرف چار بزرگ ترین ہستیوں  (حضرت‏اِمام اعظم ابو حنیفہؒ، حضرت اِمام شافعیؒ، حضرت اِمام مالک ؒ،حضرت اِمام احمد بن حنبلؒ) کو نصیب فرمائی۔ اور یہ حضرات حضورﷺ کے فرمان کے مطابق خیر القرون یعنی خیر والے زمانے کے لوگ ہیں۔ جیسے کہ حدیث میں آیا ہے:”خیر والا زمانہ میرا ہے پھر اس کے بعد کا پھر اس کے بعد کا۔“

آپﷺ اور صحابہ کرام ؓ   کا دور پہلا دور ہے، صحابہ کرام ؓ کے بعد ان کے شاگردوں یعنی تابعین کا دوسرا  دورہے، اس کے بعد تابعین کے شاگردوں یعنی تبع تابعین کا تیسرا  دور ہے۔ چنانچہ دینی تشریحات کے تمام بنیادی اور ضروری اُصول و ضوابط کی ترتیب و تدوین انہی ادوار میں مکمل ہوئی ہیں۔ ان ادوار کے خیر پر ہونے کی ذمہ داری آپ ﷺ نے قبول فرمائی ہے۔ امام ابو حنیفہ تابعی ہیں جبکہ امام شافعیؒ ، امام مالکؒ اور امام احمد بن حنبل ؒ  تبع تابعی ہیں۔

(تفصیلی جواب جاننے کے لئے حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب  دامت برکاتہم کی کتاب ” تقلید کی شرعی حیثیت ” کا مطالعہ  کریں)