کیا جاوید غامدی منکر حدیث ہے؟

احادیثِ نبوی ﷺ کے بارے میں اُمَّتِ مُسلِمَہ کا نقطہ نظر

اُمت ِ مسلمہ کا متفقہ مؤقف ہے کہ دینی احکامات معلوم کرنے کے لئے  پہلا ماخذ (Source)قرآنِ پاک اور دوسرا نبی کریم ﷺ کی احادیث(سنت) ہیں ۔ قرآن و حدیث سے ہی اس بات کا علم ہوا کہ  اِجماع اور قیاس (اجتہاد)بھی دینی احکامات کا  ماخذ (سَرچِشمہ) ہیں۔

قرآن ِ پاک کی تشریح و تعبیر احادیث ِ نبوی  کے بغیر ممکن ہی نہیں اور ہر مسئلے کے شرعی  حکم کو سب سے پہلے قرآنِ پاک  میں تلاش کیا جائے گا اور اگر اُس میں  تفصیل نہ مِلے تو پھر احادیثِ نبوی ﷺ کی طرف رُجوع کیا جائے گا۔ قرآنِ پاک ، احادیثِ مبارکہ اور اُمَّت کے اجماع  سے یہ بات ثابت  ہے کہ نبی کریم ﷺ کے ارشاداتِ مبارکہ اور آپ ﷺ کا عمل دونوں  دین میں حُجَّت (Authority) ہےاورآپ ﷺ کے اقوال و افعال دونوں کے ذریعےاُمت کو جو احکامات دئے گئے ہیں اُن  کو دین ہی کا حصہ سمجھ کر اُن پر عمل کرنا ضروری ہے۔

نبی کریم ﷺ کی احادیث کے بارے میں قرآن کیا کہتا ہے؟

نبی کریم ﷺ کے تمام ارشادات کے وحی ہونے اور حضور ﷺ کے تمام افعال کے ہر غلطی سے پاک ہونے کی قرآن پاک نے قسم کھا کر دی ہے ( نجم : 1 تا 4)۔اس کے علاوہ قرانِ پاک میں  صاف صاف یہ حکم دیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کہا ماننے کے ساتھ ساتھ نبی کریم ﷺ کا کہا بھی مانو(نساء:59)۔ قرآن پاک نے ہی  حضور ﷺ کی اطاعت کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت قرار دیا ہے۔ (نساء:80) اور مسلمانوں کو یہ حکم دیا ہے کہ  نبی کریم ﷺ نے جن چیزوں کے کرنے کاحکم دیا ہے اُن پر عمل کرواور جن چیزوں سے منع کیا ہےاُن سے رُک جاؤ (حشر:7)

 (تفصیل کا یہاں موقع نہیں البتہ خواہشمند حضرات اگر اُن آیات یا احادیث کو تفصیلاً پڑھنا چاہتے ہیں جس میں نبی کریم ﷺ کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے  تووہ مفتی تقی عثمانی صاحب کی کتاب "حُجیّتِ حدیث” یااُس کا  انگریزی ترجمہ ” Authority of Sunnah” یا ڈاکٹر محمود غازی ؒ کی کتاب "محاضرات ِ حدیث” یا علامہ ڈاکٹر خالد محمود صاحب کی کتاب "آثار الحدیث”ملاحظہ فرمائیں۔)

احادیثِ نبوی ﷺ سے ثابت شُدہ دینی احکامات کی چند مثالیں

قارئین! سینکڑوں دینی احکامات میں سے چند ایسےدینی احکامات کی فہرست نیچے درج کی جا رہی ہے جوصرف احادیثِ نبوی ﷺ سے ثابت ہیں اور صحابہ کرام، تابعین اور تمام مجتہدین نے اِس کو دین سمجھ کر ہی اس پر عمل کیا ہے؛

مُرتد کے لئے قتل کی سزا، شادی شدہ زانیوں کے لئے رَجَم یعنی سنگساری کی سزا،توہین ِ رسالت کی سزا،شراب نوشی پر سزا،  مَردوں کے لئے داڑھی بڑھانا،عورتوں کے لئے خاص ایام میں نماز کا معاف ہونا،مردوں کے لئے سونے کا حرام ہونا،مختلف قسم کے اموال پر زکوٰۃ کے نصاب کی تفصیلات وغیرہ

دینی اَحکام کے حوالے سے اِہلِ السُنَّۃ وَالجَماعَۃ کا طریقہ کار

اہل السنۃ والجماعۃ کاطریقہ کاریہ ہے کہ وہ دینی احکامات  اخذ کرنے کے لئے سنت وحدیث کو ماخذ (Source)ومعیار(Standard) سمجھتے ہیں، جبکہ اس کی وضاحت اور تشریح کے لیے صحابہ کرام سے رجوع کرتے ہیں اور اسی وجہ سے وہ اہل السنۃ والجماعۃ کہلاتے ہیں۔

 چنانچہ جن عقائد پر ایمان لانا ایک مسلمان کے لیے ضروری قرار دیا گیا ہے، ان میں سے اکثر و بیشتر کا ماخذ (Source) حدیث نبوی ﷺ ہی ہے۔ کیونکہ عقیدہ کا تعلق خالصتاً ’’علم‘‘ سے ہے اور اُمَّت  کی اکثریت کے نزدیک جو باتیں عقائد وایمانیات میں شامل ہیں، ان کی بنیاد صرف قرآن کریم پر نہیں ہے، بلکہ حدیث وسنت کو بھی ایمانیات وعقائد کے تعین اور تعبیر وتشریح کے لئے ماخذ کی حیثیت حاصل ہے۔ اور جس طرح قرآن کریم کے ارشادات ہمارے عقیدہ وایمان کا حصہ بنتے ہیں، اسی طرح جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات ِ مبارکہ بھی ایمان وعقیدہ کی بنیاد ہیں۔

احادیثِ نبوی ﷺ کے بارے میں جاوید غامدی کا مؤقف

جاوید غامدی حدیث اور سنت میں فرق کے قائل ہیں ۔سنت سے اُن کی مراد کیا ہے، یہ تو اگلی پوسٹ میں بیان کیا جائے گا انشاء اللہ، البتہ یہاں حدیث کے متعلق اُن کا نقظہ نظر پیش کر رہا ہوں؛

احادیث ِ نبوی ﷺ کے متعلق  جاوید غامدی کا نظریہ یہ ہے کہ

” جنہیں اصطلاح میں حدیث کہا جاتا ہے اُن کے بارے میں یہ بات تو  بالکل واضح ہے  کہ اِن سے دین میں  کسی عقیدہ و عمل کا اِضافہ نہیں ہوتا” (میزان ص 61 طبع پنجم )

ذرااحادیثِ مبارکہ کے بارے میں مذکورہ بالا چند قرآنی آیات  پڑھئے اور جاوید غامدی کے اس نظریہ پر سوچئے؛

  • کیا یہ نظریہ دین کی بنیادوں کو تباہ وبرباد کرنے والا نہیں؟
  • کیا عقائد ،عبادات،معاملات،معاشرت ،اخلاقیات ،سیاست اور دین کے دیگر شعبوں کے لئے نبی کریم ﷺ نے جو ہدایات ، احادیثِ مبارکہ کی صورت میں دی ہیں اور جس پر صحابہ کرام ،تابعین اور تبع تابعین نے عمل کیا ہے اور اِسے دین کاحکم سمجھا ہے وہ سب دین نہیں ہے؟

احادیثِ نبوی ﷺ کو دین میں عقیدہ و عمل کا ماخذ نہ سمجھنے کا نتیجہ

احادیث کو دین کاماخذ نہ سمجھنے کی وجہ سے؛

  • جاوید غامدی مُرتَد کے لئے قتل کی سزا کے قائل نہیں۔
  • شادی شدہ زانی کے رجم (سنگساری) کی سزا کے قائل نہیں۔
  • اِجماعِ اُمت کو دینی احکام کا ماخذ نہیں سمجھتے۔
  • زکوٰۃ کےنصاب کے بارے میں ریاست کوکمی بیشی کا اختیار دیتے ہیں۔
  • توہینِ رسالت کی سزا ئے موت کو قرآن و حدیث کے خلاف سمجھتے ہیں۔
  • حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زندہ آسمانوں پر اُٹھائے جانے کے قائل نہیں اور کہتے ہیں کہ اُن کو موت آ چکی ہے (نعوذُ باللہ) اور قیامت سے پہلے وہ دوبارہ نازل نہیں ہونگے۔
  • غلبہ ِ اسلام کے لئے جنگ (جہاد) کے مخالف ہیں۔
  • اِمام مہدی کی آمد کو ایک افسانہ کہتے ہیں۔
  • کسی کو کافر کہنے کے مخالف ہیں یہاں تک کہ غلام قادیانی اور اُن کے متبعین کو بھی کافر کہنے کو غلط تصور کرتے ہیں۔
  • موسیقی کو جائز سمجھتے ہیں۔
  • داڑھی کو دین کا حکم نہیں سمجھتے۔وغیرہ

اہل السنت والجماعت  کا متفقہ مؤقف:عقائد قرآن ِ پاک  کے علاوہ احادیث ِنبوی ﷺسے بھی ثابت ہوتے ہیں

(دورِ صحابہ کی دو مثالیں)

اس سلسلے میں صحابہ کرامؓ کے دور کے بہت سارے واقعات میں صرف  دو واقعات کو یہاں پر درج کیا جا رہا ہے جو اس بات کی وضاحت کے لیے کافی ہیں کہ صحابہ اور تابعین کے دور میں عقیدہ کے تعین اور تشریح، دونوں میں قرآن کریم کے ساتھ ساتھ حدیث نبوی کو بھی ماخذ کی حیثیت حاصل تھی اورقرآن و سنت دونوں کی وضاحت اور ان کے صحیح مفہوم معلوم کرنے  کے لیے صحابہ کرامؓ سے رجوع کیا جا تا تھا۔

1:           امام مسلم نے ’’صحیح مسلم‘‘ کی سب سے پہلی روایت میں یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ یحییٰ بن یعمرؒ (تابعی)نے بیان کیا ہے کہ جب بصرہ میں معبد جہنی نے تقدیر کے انکار کی بات کی تو میں اور حمید بن عبد الرحمن حج یا عمرہ کے لیے روانہ ہوئے اور ہم نے آپس میں مشورہ کیا کہ ہمیں صحابہ کرامؓ میں سے کسی بزرگ کی زیارت نصیب ہو گئی تو ہم ان سے معبد جہنی کے اس عقیدے کے بارے میں دریافت کریں گے۔

 ہمیں اس سفر میں حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کی زیارت کا شرف حاصل ہو گیا۔ ہم نے ان سے عرض کیا کہ ہمارے علاقے میں کچھ لوگ ہیں جو قرآن کریم بھی پڑھتے ہیں اور علم کی باتیں بھی خوب کرتے ہیں، لیکن اس کے ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ تقدیر کوئی چیز نہیں ہے اور دنیا میں جو کام بھی ہوتا ہے، نئے سرے سے ہوتا ہے (یعنی پہلے سے اس کے بارے میں کچھ لکھا ہوا نہیں ہے)۔ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ نے اس کے جواب میں فرمایا کہ جب تم واپس جا کر ایسے لوگوں سے ملو تو انھیں میری طرف سے کہہ دو کہ میں ان سے براء ت کا اعلان کرتا ہوں اور وہ جب تک تقدیر پر ایمان نہیں لائیں گے، اگر اُحد پہاڑ جتنا سونا بھی اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کر دیں تو ان سے وہ ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا۔ اس کے بعد حضرت عبد اللہ بن عمرؓ نے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک طویل حدیث سنائی جس میں ایمانیات کا ذکر کرتے ہوئے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ تم تقدیر پر بھی ایمان لاؤ کہ خیر اور شر سب کچھ اللہ تعالیٰ کے علم کے مطابق ہوتا ہے( وتؤمن بالقدر خیرہ و شرہ)

2:           دوسرا واقعہ بھی امام مسلم نے ہی کتاب الایمان میں ذکر کیا ہے، اس میں ایک اور تابعی بزرگ حضرت یزید الفقیر فرماتے ہیں کہ میں خوارج کے اس عقیدہ سے متاثر تھا کہ جو شخص ایک بار جہنم میں چلا گیا، وہ وہاں سے کبھی نہیں نکلے گا اور شفاعت کوئی چیز نہیں ہے، مگر مجھے ایک مرتبہ بہت سے دوستوں کے ساتھ حج کے لیے جانے کا موقع ملا تو مدینہ منورہ میں حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما کو مسجد نبوی میں دیکھا کہ وہ ایک ستون کے ساتھ ٹیک لگائے لوگوں کو وعظ فرما رہے تھے۔ انھوں نے اپنی گفتگو میں کچھ لوگوں کے جہنم سے نکل کر جنت میں جانے کا ذکر کیا تو میں نے سوال کر دیا کہ حضرت! قرآن کریم تو کہتا ہے کہ اے اللہ، جس کو تو نے جہنم میں داخل کیا تو اسے رسوا کر دیا( ربنا انک من تدخل النار فقد اخزیتہ) اور قرآن کریم میں ہے کہ” جہنم سے جب بھی لوگ نکلنے کا ارادہ کریں گے تو اسی میں لوٹا دیے جائیں گے”(  کلما ارادوا ان یخرجوا منہا اعیدوا فیہا) تو اس کے بعد آپ حضرات یہ کیا کہہ رہے ہیں کہ شفاعت ہوگی اور کچھ لوگوں کو جہنم میں سے نکالا جائے گا؟ حضرت جابرؓ نے اس کے جواب میں فرمایا کہ کیا تم نے قرآن کریم پڑھا ہے؟ میں نے اثبات میں جواب دیا تو فرمایا کہ کیا اس میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ’’مقام محمود‘‘ کا تذکرہ بھی پڑھا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ ہاں پڑھا ہے تو اس پر حضرت جابر بن عبد اللہ نے ایک طویل حدیث سنائی جس میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ قیامت کے دن ’’مقام محمود‘‘ میں کھڑے ہو کر شفاعت کریں گے اور ان کی شفاعت پر بے شمار لوگوں کو جہنم سے نکال کر جنت میں داخل کیا جائے گا، جبکہ وہ آگ میں جل کر کوئلہ ہو چکے ہوں گے۔

 یزید الفقیر فرماتے ہیں کہ حضرت جابر سے یہ حدیث سن کر ہم نے آپس میں گفتگو کی اور ایک دوسرے سے کہا کہ تمہارے لیے بربادی ہو، کیا یہ بزرگ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے جھوٹ بول رہے ہیں؟ چنانچہ ایک شخص کے سوا ہم سب رفقا نے اپنے سابقہ عقیدے سے رجوع کر لیا۔

نتیجہ؛

ان دونوں واقعات کو ایک بار پھر پڑھ لیجیے بلکہ یہاں تو  انھیں مختصراً نقل کیا گیا  ہے، صحیح مسلم میں انھیں براہ راست بھی دیکھ لیجیے، ان میں عقیدہ کی بات ہے۔ اور ایک واقعہ میں توسوال کا جواب دینےکے لیے قران کریم کی دو آیات کا حوالہ دیا گیا ہے،لیکن اُن کی وضاحت کے لیے صحابہ کرام سے رجوع کیا گیا ہے، دونوں بزرگوں یعنی حضرت عبد اللہ بن عمرؓ اور حضرت جابر بن عبد اللہؓ نے عقیدہ کی وضاحت کے لیے حدیث نبوی ﷺ پیش کی ہے، اور پوچھنے والوں نے اسے کافی سمجھتے ہوئے اپنے عقیدہ کو درست کر لیا ہے۔

 

3-جاوید غامدی کا سُنَّتِ نبوی ﷺ کے بارے میں  کیا نظریہ ہے؟

جاوید غامدی "سُنَّت” اور "حدیث” میں فرق کرتےہیں اور سُنَّت کی ایسی تعریف (Definition) کرتے ہیں جو چودہ سو سالوںمیں آج تک کسی مجتہد ، مُفَّسِر یا محدث نے نہیں کی  ۔یہی وجہ ہے کہ  اُن کے نزدیک دین میں کل سنتوں کی تعداد صرف 26 ہے۔

غامدی صاحب اپنی کتاب میزان  کے صفحہ 14-15 پر  سُنَّت کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:” سُنَّت سے مراد ہماری دین ابراہیمی کی  وہ روایت ہے جسے نبی کریم ﷺ نے اس کی تجدید و اصلاح کے بعد اور اُس میں بعض اضافوں کے ساتھ اپنے ماننے والوں میں دین کی حیثیت سے جاری فرمایا ہے”۔

حقیقت یہ ہے کہ سنتِ نبوی کا یہ مفہوم نہ صرف یہ کہ  اُمت کے اجماعی (اتفاقی) نقطہِ نظر کے خلاف ہے  بلکہ انتہائی گمراہ کُن اور عملاً سنت کو حجت (authority) ماننے سے انکار کے مترادف ہے۔

جاوید غامدی  سے دو سوالات

 1:          جاوید غامدی لکھتے ہیں کہ  کسی بھی عمل کو سنت  اُسی وقت قرار دے  سکتے ہیں جب وہ ہمیں عملی تواتر(تسلسل) سے پہنچا ہو۔ حالانکہ سب سے پہلے تو جاوید غامدی کو چاہیئے کہ وہ اپنی بیان کردہ مندرجہ بالا تعریف ( Definition)  کو صحابہ کرام اور اُمت کے عملی تواتر (تسلسل) سے ثابت کر یں اوراِسکے علاوہ یہ بھی ثابت کرنا ضروری ہے کہ کیا کسی صحابی ،تابعی یا مجتہد نے سنت کی یہ تعریف کی ہے؟؟ اور کیا یہ تعریف کسی عملی تواتر سے ثابت ہے؟ اگراُن کے نزدیک  کسی عمل کو سنت قرار دینے کے لئے یہ ضروری ہے کہ اُس پر ہر دور میں تمام مسلمانوں نے عمل کیا ہو (جسے  عملی تواتر کہتے ہیں)تو کیا سنت کی مندرجہ بالا تعریف ( Definition) کا تواتر سے ثابت ہونا ضروری نہیں؟

جب جاوید غامدی کی بیان کردہ سنت کی مندرجہ بالا تعریف ہی قرآن پاک،احادیث ،صحابہ یا مجتہدین سمیت کسی سے ثابت ہی  نہیں تو آگےاِس بات کی بحث میں پڑنا ہی فضول ہے کہ جاوید غامدی نے پورے دین میں صرف6 2  چیزوں کوہی کیوں سنت قرار دیا ہے اور باقی سنتوں کا انکار کیوں کیا ہے؟

2:           دوسرا سوال یہ ہے کہ جن 26 چیزوں کو جاوید غامدی سنت قرار دے رہے ہیں کیاوہ  ان کو  حضرت ابراہیم علیہ السلام سے لے کر آج تک عملی تواتر سے ثابت  کر سکتے ہیں ؟

سنت کی غلط تعریف  کےنتائج

اگر جاوید غامدی صاحب کی مندرجہ بالاتعریف کو سامنے رکھا جائے تو جناب نبی اکرمﷺ کا ہر وہ عمل اور قول سنت کے دائرہ سے نکل جاتا ہے جس کا دین ابراہیمیؑ کے سابقہ تسلسل کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے اوروہ نبی کریم ﷺ کے وہ تمام اعمال بھی "سنت” کے دائرے سے نکل جاتے ہیں جو اُنہوں نے  اپنی طرف سے نئی سنت کے طور پر جاری فرمائے تھے۔اور جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا کہ کسی سنت کے ثبوت کے لیے غامدی صاحب کے نزدیک یہ بھی ضروری ہے کہ وہ صحابہ کرامؓ اور ان کے بعد امت کے اِجماع اور قولی تواتر سے ثابت ہو۔ اور جو سنت نبویﷺ یا حدیث رسول اللہﷺاجماع اور تواتر کے ذریعہ ہم تک نہیں پہنچی وہ غامدی صاحب کے نزدیک ثابت شدہ نہیں ہے۔

لہٰذا اگر حدیث و سنت کے تعین اور ثبوت کے لیے مندرجہ بالا معیار کو قبول کر لیا جائے تو چوہدری غلام احمد پرویز(مشہور منکر ِ حدیث)  اور ان کے رفقاء کی طرح حدیث و سنت کے انکار کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی۔ بلکہ اس وقت حدیث و سنت کے نام سے روایات کا جو ذخیرہ امت کے پاس موجود ہے اور جس کی چھان بین کے لیے محدثین تیرہ سو برس سے صبر آزما  علمی جدوجہد میں مصروف چلے آرہے ہیں اس کا کم و بیش نوے فیصد حصہ خود بخود سنت کے دائرے سے نکل کر (نعوذ باللہ ) غیر اہم قرار پا جاتا ہے۔

آخری بات

نرم ترین الفاظ میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ جاوید غامدی "سنت” کو اپنے خودساختہ معنی و مفہوم میں استعمال کرکے احادیث ِ نبوی ﷺ کے ذخیرے کے بہت بڑے حصے اور اُن سے ثابت شدہ دینی  احکامات کا  انکار کررہے ہیں،اور یوں وہ ایسا کارنامہ سر انجام دے رہے ہیں جو مشہور منکر ِ حدیث غلام احمد پرویز بھی اَنجام نہ دے پائےتھے۔

نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام کے مطابق "سنت ” کا مفہوم

نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام کے مطابق "سنت ” کا مفہوم کیا تھا یہ بھی ذرا ملاحظہ فرمائے؛

  • بخاری شریف کی روایت (۸۹۸) کے مطابق جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عید الاضحی کے دن کی ترتیب میں نماز کو پہلے اور قربانی کو بعد میں رکھا ہے اور فرمایا ہے کہ جس نے ہماری ترتیب پر عمل کیا، اس نے ہماری سنت کو پا لیا(’’فقداصاب سنتنا‘‘)۔
  • موطا امام مالک کی روایت کے مطابق جناب نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: میں نے تم میں دو چیزیں  چھوڑیں ہیں جب تک تم اِ نکو تھامے رہو گے ہر گز گمراہ نہ ہوگے (ایک) کتاب اللہ اور دوسرے اللہ کے رسول کی سنت۔ مشہور زمانہ حدیثِ معاذ رضی اللہ عنہ میں بھی اس کا واضح ذکر ہے ( احمد،ابوداؤد،ترمذی)
  • بخاری شریف کی روایت (۱۵۵۰) کے مطابق حج کے موقع پر حجاج بن یوسف کو ہدایات دیتے ہوئے حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے فرمایا کہ اگر تم سنت پر عمل کا ارادہ رکھتے ہو تو خطبہ مختصر کرو اور وقوف میں جلدی کرو(’’ان کنت ترید السنۃ‘‘)۔
  • بخاری شریف کی روایت (۱۴۶۱) کے مطابق حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں لوگوں کو حج اور عمرہ اکٹھا کرنے سے بعض وجوہ کی بنا پر منع کیا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یہ کہہ کر حج اور عمرہ کا اکٹھا احرام باندھ لیا کہ میں کسی کے قول پر سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں چھوڑ سکتا۔
  • بخاری کی روایت (۳۷۶) میں بتایا گیا ہے کہ حضرت حذ یفہؓ نے ایک شخص کو دیکھا کہ نماز میں رکوع وسجود مکمل نہیں کر رہا تو فرمایا کہ اگر تو اسی طرح نماز پڑھتے ہوئے مرگیا تو تیری موت ’’سنت محمد صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ پر نہیں ہوگی۔
  • بخاری شریف کی روایت (۱۵۹۸) میں بتایا گیا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ اونٹ کو بٹھا کر ذبح کر رہا ہے تو فرمایا کہ اس کو کھڑا کر کے ایک ٹانگ باندھ دو اور سنت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق ذبح کرو۔
  • بخاری کی روایت (۲۳۸۳) میں بتایا گیا ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مجلس میں اپنا بچا ہوا مشروب بائیں طرف بیٹھے ہوئے حضرت ابوبکر صدیق کی بجائے دائیں طرف بیٹھے ہوئے ایک اعرابی کو دیا اور فرمایا کہ کوئی چیز دینے لگو تو دائیں طرف سے شروع کرو۔ یہ واقعہ بیان کرکے حضرت انس نے فرما یا کہ یہی سنت ہے، یہی سنت ہے، یہی سنت ہے۔