کیا قرآن پاک کو احا دیث نبوی ﷺ کے بغیر سمجھنا ممکن نہیں؟

یہ ایک  حقیقت ہے کہ احادیثِ نبوی ﷺ  کے بغیر قرآنی تعلیمات  کو پوری طرح  سمجھنا   ناممکن ہے۔ قرآن مجید سے ہی ہمیں اِس بات  کا پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک کے مضامین کی وضاحت کے لئے حضرت محمدﷺ  کو منتخب کیا۔ ارشاد بار تعالیٰ ہے:

وَاَنْزَلْنَا اِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْہِمْ وَلَعَلَّہُمْ یَتَفَکَّرُوْنَ﴾․ (سورہٴ النحل 44)

”اور (اے پیغمبر ﷺ) ہم نے تم پر بھی یہ قرآن اس لئے نازل کیا ہے تاکہ تم لوگوں کے سامنےاُن باتوں کی واضح تشریح کرو جو اُن کے لئے اُتاری گئی ہیں اور تاکہ وہ غور و فکر سے کام لیں۔“ (سورۂ النحل ، آيت ۴۴)

دوسری جگہ فرمایا گیا ہے؛

*… ﴿وَمَآ اَنْزَلْنَا عَلَیْکَ الْکِتَابَ اِلَّا لِتُبَیِّنَ لَہُمُ الَّذِیْ اخْتَلَفُوا فِیْہِ﴾ (سورہٴ النحل 64)

یہ کتاب ہم نے آپ صلى الله عليه وسلم پر اس لیے اتاری ہے کہ آپ صلى الله عليه وسلم ان کے لیے ہر چیز کو واضح کردیں جس میں وہ اختلاف کررہے ہیں۔

دوسری جگہ ارشاد ہے:” ہم نے تمہارے درمیان تم ہی میں سے ایک رسول بھیجا جو تمہارے سامنے ہماری آیتوں کی تِلاوت کرتا ہے، اور تمہیں پاکیزہ بناتا ہے ، اور تمھیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔”(سورۂ بقرۃ، آیت ۱۵۱) یعنی نبی کریم ﷺ کا پہلا فریضہ تلاوت ِ آیات ہے۔اور  دوسرا مقصد قرآنِ کریم کی تعلیم ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ آنحضرت ﷺ کی تعلیم  کے بغیر قرآنِ کریم کو ٹھیک ٹھیک سمجھنا ممکن نہیں، اور یہ کہ صرف ترجمہ پڑھ لینے سے قرآنِ کریم کی صحیح سمجھ حاصل نہیں ہو سکتی، کیونکہ اہلِ عرب  عربی سے خوب واقف تھے، اُنہیں ترجمہ سکھانے کے لئے کسی اُستاد کی ضرورت نہيں تھی۔ تیسرے آپ کا فریضہ یہ بتایا گیا ہےکہ آپ ﷺ  "حکمت”  کی تعلیم دیں۔ اِس سے معلوم ہوا کہ حکمت ، دانائی اور عقلمندی وہی ہے جو آنحضرت ﷺ نے تلقین فرمائی۔ اِس سے نہ صرف آپ ﷺ  کی احادیث کا حجّت ہونا معلوم ہوتا ہے بلکہ یہ بھی واضح ہو تا ہے کہ اگر آپ کا کوئی حکم کسی کو اپنی عقل کے لحاظ سے حکمت کے خلاف محسوس ہو تو اعتبار اُس کی عقل  کا نہیں ، بلکہ آنحضرت ﷺ کی سکھائی ہوئی حکمت کا ہے۔ چوتھا فریضہ یہ بتایا گیا ہے کہ آپ ﷺ لوگوں کو پاکیزہ بنائیں ۔ "پاکیزہ بنانے کا مطلب انسان کے باطن کے اخلاقِ رزیلہ یعنی حسد، لالچ ، کینہ ، ریا، جذباتِ شہوانیہ  کا غلط استعمال ، غصہ وغیرہ سے  پاک کر کے ان کی جگہ عاجزی ، محبت ، خیر خواہی اور اخلاص کے جذبات پیدا کرنا ہے۔